سورة البقرة - آیت 254

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! ہم نے تمہیں جو روزی دی ہے، اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو (347) وہ دن آنے سے پہلے جب نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی، اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی، اور نہ کوئی سفارش، اور کفر کرنے والے (اپنے اوپر ہی) ظلم کرنے والے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٥٩] یہاں انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ مال سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اگر اس میں سے خرچ نہ کیا جائے تو یہ بات انسان کے لیے فتنہ اور اس کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اے مسلمانو! جس دین پر تم ایمان لائے ہو اس کی راہیں ہموار کرنے اور اس کے قیام کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے اور معاشرہ میں ناتواں اور محتاج افراد کی مدد کرنے کے لیے بھی اور ایسے ہی صدقات آخرت میں انسان کی نجات کا سبب بنیں گے لہٰذا اس طرف خصوصی توجہ دلائی گئی۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا صدقہ اجر کے لحاظ سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا : ’’جو تندرستی کی حالت میں کرے، حرص رکھتا ہو، فقر سے ڈرتا ہو اور دولت کی امید رکھتا ہو، لہٰذا صدقہ کرنے میں جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ جاں لبوں پہ آ جائے تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کو دے دو اور اتنا فلاں کو۔ حالانکہ اس وقت یہ مال اس کا نہیں اس کے وارثوں کا ہوتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب ان افضل الصدقہ صدقہ الصحیح الشحیح) یعنی قیامت کے دن تمہارے یہی صدقات ہی کام آئیں گے۔ تمہاری یہ سوداگریاں اور دوستیاں کام نہیں آئیں گی۔ نہ ہی وہاں کسی کی سفارش کام دے گی۔ [٣٦٠] اس جملہ کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدقات (بالخصوص زکوٰۃ) نہ دینے والے کافر ہیں اور وہی ظالم ہیں جو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے بھی اللہ کی راہ میں نہیں دیتے اور ایک وہ جو ترجمہ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی جو لوگ قیامت کے دن اللہ کے قانون جزا و سزا اور اس کے ضابطہ پر ایمان نہیں رکھتے وہ کافر بھی ہیں اور ظالم بھی۔