يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ
جس دن تم اسے دیکھو گے (اس دن) ہر دودھ پلانے والی (مارے دہشت کے) اس بچے کو بھول جائے گی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی اور اس (دن) آپ لوگوں کو دیکھیں گے کہ جیسے ان پر نشہ طاری ہے، حالانکہ وہ نشہ کی حالت میں نہیں ہوں گے، بکہ اللہ کا عذاب شدید ہوگا۔
[١] علم ہئیت کے موجودہ نظریہ کے مطابق ہماری زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ سورج سے زمین کا فاصلہ ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے۔ اور زمین سورج کے گرد جتنے عرصہ میں ایک چکر ختم کرتی ہے اسے ہم سال کا عرصہ کہتے ہیں۔ اس حساب سے ہماری زمین سورج کے گرد چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ پھر اس فضائے بسیط میں صرف ہماری زمین ہی محو گردش نہیں بلکہ تمام سیارے اسی طرح گردش میں مصروف ہیں۔ ان سب کے مدار الگ الگ ہیں اور ان سیاروں میں کشش، جذب و انجذاب رکھ دی گئی ہے۔ جن کی وجہ سے ان میں ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا۔ اور یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے کنٹرول اور اس کی تدبیر کے تحت ہو رہے ہیں۔ ہر سیارہ اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کی اس شدت سے پابند ہے کہ ان کی رفتار سرمو فرق آتا ہے اور نہ ہی ان میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے اور یہ سب ایسے امور ہیں جنہیں ہر انسان بجش خود دیکھ رہا اور ان کی شہادت دے رہا ہے۔ قریب قیامت کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ بالفاظ دیگر سورج الٹی چال چلنے لگے گا۔ جسے ہم موجودہ نظریہ کے مطابق یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زمین الٹی چال چلنے لگے گی اور بعض سیاروں کے الٹی چال چلنے کا نظریہ ہیئت دانوں میں معروف ہے۔ بطلیموس نظریہ کے مطابق پانچ سیارے زحل، مشتری، مریخ، زہرہ، عطارد ایسے ہیں جو سیدھی چال چلتے چلتے الٹی چال چلنے لگتے ہیں۔ پھر کچھ مدت بعد سیدھی چال چلنے لگتے ہیں۔ اور ان سیاروں کو ''خمسہ متحیرہ'' کہتے ہیں۔ الٹی چال چلنے اور پھر سیدھی چال پر رواں ہونے کی تصدیق قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔ ﴿ فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ ﴾(۱۶:۱۵:۸۰) ’’سو میں ان ستاروں کی قسم کھاتا ہوں جو سیدھی چال چلتے چلتے یکدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں (اور) ان کی جو سیدھی چال چلتے تھوڑا سے ہٹ جاتے ہیں (اور ان کی بھی) جو غائب ہوجاتے ہیں“ قیامت کیسےبپاہوگی اور سیاروں کاآپس میں ٹکراجانا اور ا س کی دہشت :۔ پھر جب اللہ تعالیٰ قیامت بپا کرنے کا ارادہ فرمائے گا تو صرف اتنا ہی ہوگا کہ کسی ایک سیارہ سے کشش جذب و انجذاب کو سلب کرلے اور ہماری زمین کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے۔ اب آپ اندازہ فرمائیے کہ اگر دو ریل گاڑیاں یا دو تیز رفتار بسیں آپس میں ٹکرا جائیں تو کیا حشر بپا ہوتا ہے۔ اور جب ہماری زمین جو چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی سی برق رفتاری سے محو گردش ہے۔ کم و بیش اسی رفتار والے سیارے سے ٹکڑا جائے گی تو کیا حشر بپا ہوگا۔ یہی منظر ان دو آیات میں پیش کیا گیا ہے کہ اس دھماکہ کی دہشت سے ہر حاملہ کا حمل ساقط ہوجائے گا اور لوگ یوں مخبوط الحواس ہوجائیں گے جیسے کوئی نشہ آور چیز پی رکھی ہے۔ اس منظر کی ہولناکی کو بعض دوسری آیات میں یوں پیش کیا گیا ہے ’’اس وقت زمین کو ریزہ ریزہ اور پاش پاش کردیا جائے گا‘‘ (٨٩: ٢١) ’’زمین اپنے خزانے جیسے تیل، گیسیں اور معدنیات وغیرہ اپنے اندر سے نکال کر باہر پھینک دے گی اور خالی ہوجائے گی‘‘ (٨٤: ٤) پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح اڑتے پھریں گے اور لوگ یوں بدحواس ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ہوں گے جیسے روشنی کے گرد پتنگے گرے پڑتے ہیں (١٠١: ٤۔ ٥) غرض قیامت کے واقع ہونے پر دہشت اور ہولناکی کے منظر کو قرآن میں اور بھی بہت سے مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ قیامت کا دن دراصل ایک طویل دور کا نام ہے اور از روئے قرآن اس دن کی مدت ہمارے موجودہ حساب کے مطابق پچاس ہزار سال ہے۔ اس طویل عرصہ میں کئی اوقات ایسے آئیں گے جن کی دہشت اور ہولناکی اور گھبراہٹ اسی طرح کی ہوگی۔ چنانچہ درج ذیل حدیث میں جس دہشت اور گھبراہٹ کا ذکر ہے وہ یقیناً قیامت کے بپا ہونے کا موقع نہیں بلکہ کوئی اور ہی وقت ہے۔ اور اس دہشت اور گھبراہٹ کا سبب بھی قیامت کا زلزلہ یا دھماکہ نہیں بلکہ اس کا سبب جہنم میں جانے کا خدشہ ہے۔ یاجوج ماجوج کا جہنم میں حصہ:۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اے آدم! وہ کہیں گے: پروردگار! میں حاضر ہوں جو ارشاد ہو۔ پھر ایک فرشتہ آواز سے پکارے گا’’اللہ تعالیٰ انھیں حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد سے دوزخ جانے والوں کا حصہ نکالو‘‘ وہ عرض کریں گے : پروردگار! دوزخ کے لئے کتنا حصہ (نکالوں؟) راوی کہتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک ہزار میں سے نو ننانوے‘‘ یہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور بچہ بوڑھا ہوجائے گا اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا۔ یہ بات صحابہ پر بہت دشوار گزری اور ان کے چہرے متغیر ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : نو سوننانوے تو یاجوج و ماجوج سے ہوں گے اور ایک تم سے ہوگا۔ اہل جنت کا نصف امت مسلمہ ہوگی:۔ پھر تم تو تمام خلقت میں ایسے ہوگے جیسے کسی سفید بیل کے پہلو میں ایک کالا بال ہو یا کسی کالے بیل کے پہلو میں ایک سفید بال ہو۔ اور میں امید کرتاہوں کہ تم سب لوگ اہل جنت کا چوتھا حصہ ہوگے۔ (یہ سن کر خوشی سے) ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم جنت کا تیسرا حصہ ہوگے‘‘ ہم نے پھر اللہ اکبر پکارا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم اہل جنت کا آدھا حصہ ہوگے‘‘ ہم نے پھر اللہ اکبر کہا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)