وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
اور ہم نے لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد تمام آسمانی کتابوں میں لکھ (٣٨) دیا ہے کہ سرزمین کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے۔
[٩٣]صالحین کی نئی تعبیر ۔۔۔خلافت ارضی اورصالحین کی بحث:۔ اس آیت کے معنی کی بعض اہل مغرب کے شیدائیوں نے نہایت غلط تعبیر پیش کی ہے۔ وہ اس آیت میں صالحون سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرمانروا اور نیک بخت بندے مراد نہیں لیتے بلکہ ان کے نزدیک صالحون سے مراد صلاحیت رکھنے والے لوگ ہیں۔ یعنی جو لوگ بھی اس وقت روئے زمین پر حکمرانی کر رہے ہیں یا حکمرانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہی اللہ کے نزدیک صالح ہیں۔ خواہ وہ بدکردارہوں، کافر ہوں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بھی منکر ہوں اور یہ نظریہ کتاب و سنت کی مجموعی تعلیم کے سراسر منافی ہے۔ حالانکہ اس آیت اور اس سے پہلی آیات میں اخروی زندگی اور جنت کا ذکر ہو رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت اور جنت کی زمین کے وارث صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ کے فرمانبردار اور صالح لوگ ہیں اور اس معنی کی تائید سورۃ زمر کی درج ذیل آیت سے بھی ہوجاتی ہے : ﴿ وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّۃِ حَیْثُ نَشَاءُ ﴾ (۷۴:۳۹) ’’اور اہل جنت کہیں گے کہ ہر طرح کی تعریف اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہم سے اپنے وعدہ پورا کردیا اور ہمیں زمین کا وارث بنا دیا ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں وہیں رہتے ہیں‘‘ رہی اس دنیا کی وراثت تو اس کے متعلق فرمایا : ﴿اِنَّ الاَرْضَ نُوْرِِثُھَا مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ﴾ (٧: ١٢٨) ’’زمین اللہ تعالیٰ ہی کی ہے وہ اپنے بندوں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے‘‘ گویا اس موجودہ دنیا میں زمین کی وراثت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ نیک لوگوں کو ہی ملے۔ بلکہ بدکردار اور فاسق و فاجر بھی اس پر قابض ہوسکتے ہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ضرور ہے کہ جو ایماندار اپنے دعویٰ ایمان میں اور صالح اعمال کرنے میں سچے اور مخلص ہیں۔ حق و باطل کے معرکہ میں اللہ انھیں ہی کامیاب کرتا ہے۔ خلافت ارضی کےلیے شرائط : جیساکہ فرمایا: ﴿وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾(۳:۱۳۹) ’’اور اگر تم (اپنے اقوال و اعمال میں) مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے‘‘ اور ایسے ہی لوگوں کے حق میں اللہ نے فرمایا : ﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ﴾(۲۴:۵۵) ”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ایسے ہی خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا“ یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ نام نہاد مسلمانوں کے لئے حکمرانی کا نہیں بلکہ سچے ایمانداروں اور فرمانبرداروں سے خلافت ارضی کا وعدہ ہے جو اقتدار ملنے کے بعد دنیا دار قسم کے حکمران نہیں بلکہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام خلافت قائم کرنے والے ہوں۔