وَنَصَرْنَاهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ
اور ان لوگوں کے خلاف ان کی مدد کی جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی اور وہ لوگ بڑے ہی برے لوگ تھے اس لیے ہم نے ان سب کو ڈبو دیا۔
[٦٤] حضرت نوح علیہ السلام کا مرکز تبلیغ عراق کا دریائے دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ تھا۔ آپ پہلے نبی ہیں جنہوں نے شرک کے خلاف جہاد کیا۔ آپ کی بعثت سے پہلے آپ کی قوم بت پرستی میں مبتلا ہوچکی تھی اور تاریخ انسانیت میں یہ پہلی قوم تھی جس نے بت پوجنا شروع کئے تھے۔ آپ کی قوم انتہائی ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئی تھی۔ آپ نے ان کے خلاف ساڑھے نو سو سال جہاد کیا۔ مگر معدودے چند آدمیوں کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہ لایا۔ بلکہ آپ کی اور آپ کے گنتی کے چند پیروکاروں کی زندگی اجیران بنا رکھی تھی۔ آپ کے اتنے طویل عرصہ کے لئے صبر و برداشت کی داد دینا پڑتی ہے۔ ایک دفعہ آپ علیہ السلام نے نہایت مغموم لہجہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی : ﴿فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ ﴾ (٥٤: ١٠) یعنی اے میرے پروردگار میں ان لوگوں سے دب گیا ہوں سو اب تو ہی ان سے میرا بدلہ لے۔ اور ایک دفعہ ان کی ضد، ہٹ دھرمی سے نہایت مایوس ہو کر بڑی دعا کی : پروردگار! زمین پر کافروں کا کوئی بھی گھرانہ باقی نہ رہنے دے۔ کیونکہ جو اولاد یہ جنیں گے وہ بھی فاجر اور کافر ہی ہوگی۔ جس سے ایمان لانے کی کوئی توقع نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ اس وقت روئے زمین پر صرف یہی علاقہ انسانوں سے آباد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا طوفان بھیجا جس میں تمام کافر ڈوب کر مرگئے اور حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے متعبین کو اللہ تعالیٰ نے کشتی پر سوار کرکے بچا لیا۔