سورة الأنبياء - آیت 68

قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

لوگوں نے کہا تم لوگ اسے جلا دو، اور اگر اپنے معبودوں کی مدد کرسکتے ہو تو کر گزرو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٧]سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آ گ میں پھینکنا :۔ عقلی میدان میں جب قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے نادم اور لاجواب ہوگئی تو اب ’’ڈنڈے کے استعمال‘‘ کی باتیں ہونے لگیں۔ اور جہلاء کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ جب دلیل و حجت کے میدان میں پٹ جائیں تو ضد بازی پر اتر آتے ہیں اور انہی اکثریت کے بل بوتے پر قوت کے استعمال پر اتر آتے ہیں۔ اب صورت حال یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ آزر خود بت تراش، بت فروش اور عراق کے بادشاہ نمرود کا درباری مہنت تھا۔ اب اگر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات مانتا تو اس کا روزگار۔ اس کی آمدنی کے ذرائع اور دربار میں اس کا مرتبہ و مقام سب کچھ ختم ہوتا تھا۔ لہٰذا قوم کے لوگوں سے بڑھ کر آزر ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے دین کا دشمن بن گیا تھا۔ اب ان لوگوں نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ جیسے بھی ہوسکے اپنے مشکل کشاؤں کی عزت اور بھرم کو بچاؤ اور اس کا بہتر حل ہے کہ ابراہیم کو بھڑکتی آگ میں جلا کر اسے صفحہ ہستی سے ختم کردو۔ چنانچہ اس غرض کے لئے سرکاری سطح پر ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور ایک فلاخن کے ذریعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے اندر پھینک دیا گیا۔