سورة الأنبياء - آیت 33

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اسی نے رات اور دن اور آفتاب اور ماہتاب کو پیدا کیا ہے، ہر ایک اپنے دائرہ میں تیر رہا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣١] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نام تو دو سیاروں سورج اور چاند کا لیا اور بعد میں فرمایا: سب (اپنے اپنے) فلک میں تیر رہے ہیں۔ جس سے بہت سے حقائق کا پتہ چلتا ہے۔ (١) سبح کے معنی پانی یا فضا میں تیرنا یا تیز رفتاری سے گزر جانا ہے۔ گویا سیارے فضا یا خلا میں تیز رفتاری سے گردش کر رہے ہیں۔ (٢)شمس وقمر کی گردش :۔ سورج اور چاند کے علاوہ بھی جتنے سیارے ہیں وہ سب کے سب محو گردش ہیں۔ (٣) زمین کی گردش کےمتعلق مختلف نظریات:۔ چاند کی طرح سورج ہی یقیناً محو گردش ہے۔ یہاں ایک نہایت اہم سوال سامنے آتا ہے۔ جو یہ ہے کہ آیا ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے یا سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں آج تک چار مختلف نظریات پیش آچکے ہیں۔ ابتدائی نظریہ یہی تھا کہ ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ جیسا کہ بظاہر سب کو نظر آتا ہے۔ تقریباً ساڑھے پانچ سو سال قبل مسیح میں یونان کے ایک فلاسفر اور ہیئت دان نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور ہماری زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ نیز ہماری زمین کے علاوہ اور بھی بہت سے سیارے ہیں۔ جو سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بعد ازاں چوتھی صدی قبل مسیح میں بطلیموس فلاسفر علم ہیئت کے متعلق وہی پہلا نظریہ پیش کیا کہ حقیقت میں ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ بطلیموس علم ہندسہ ہیئت اور نجوم میں استاد وقت اور یکتائے روزگار تھا۔ اس نے اجرام فلکی کی تحقیق کے لئے ایک رصد گاہ کی بھی تیار کی تھی۔ علم ہیئت پر اس کی کتاب مجسطی نہایت معتبر سمجھی جاتی ہے۔ یہ تیسرا بطلیموسی نظریہ اپنے تمام معتقدات سمیت تقریباً ١٨٠٠ سو سال تک دنیا بھر میں مشہور و مقبول رہا۔ بالآخر یورپ کے ایک ہیئت دان کوپرنیکس (١٤٧٣۔ ١٥٤٣ء) نے سولہویں صدی کے آغاز میں یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے اور ہماری زمین اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے اور سورج کے گرد بھی سال بھر میں ایک چکر لگاتی ہے۔ لیکن کوپرنیکس کے بعد ایک دوسرے ہیئت دان ٹیکوبراہی نے کوپرنیکس کے نظریے کو رد کردیا اور تھوڑی سی ترمیم کے بعد بطلیموسی نظریہ کو ہی صحیح قرار دیا۔ جس میں زمین کو ساکن قرار دیا گیا ہے اور سورج اور دوسرے تمام سیارے اس کے گرد حرکت کر رہے ہیں۔ بعد ازاں اٹلی کے ایک ہیئت دان گیلیلیو نے ایک دوسرے ہیئت دان (ہالینڈ) کی مدد سے کئی قسم کی دوربینیں تیار کرکے اجرام فلی کا مشاہدہ کیا تو کوہرنیکس کے نظریہ کو بہت درست پایا۔ جو اس بارے میں چوتھا نظریہ تھا۔ بعد ازاں کئی ہیئت دانوں نے اس نظریہ کی تائید کی اور آج کے دور میں یہی نظریہ رائج اور درست سمجھا جارہا ہے۔ یہ کہ سورج ساکن ہے اور نو ستارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں اور یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ ہمارا سورج اپنے پورے خاندان (نظام شمسی) سمیت اپنے سے کسی بڑے سورج کے گرد گھوم رہا ہو۔ زمین کی گردش کے متعلق ہمیں کتاب و سنت میں کوئی صراحت نہیں ملتی کہ آیا وہ ساکن ہے یا متحرک؟ البتہ دلائل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ زمین بھی ایک سیارہ ہے اور گول ہے لہٰذا وہ بھی کل کے حکم میں داخل ہو اور حرکت کر رہی ہو۔ البتہ سورج کے متعلق کتاب و سنت میں بالصراحت مذکور ہے کہ وہ حرکت کر رہا ہے اور اس حرکت سے مراد محض محوری گردش ہی نہیں۔ بلکہ جریان یا سبح کے الفاظ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا اور کرتے جانا مراد ہے۔ گویا موجودہ ہیئت دانوں کا احتمال محض احتمال نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ سورج بمعہ اپنے خاندان اپنے سے کسی بڑے سورج (یعنی شمس الشموس یا ثافت الثوایت) کے گرد گھوم رہا ہے۔ (٤)افلاک اور ان کی گردش :۔ اس آیت میں فلک کا استعمال ہوا ہے۔ جس کا ترجمہ گو اردو زبان میں آسمان ہی کرلیا جاتا ہے تاہم اس سے مراد وہ سات آسمان نہیں جن کی تعداد کتاب و سنت میں (سبع سماوات) بتلائی گئی ہے۔ بلکہ اس سے مراد سیاروں کے مدار (Orbits) یا وہ راستے ہیں جن پر وہ گھوم رہے ہیں۔ بطلیموسی نظریہ کے مطابق سیارے سات تھے اور افلاک بھی سات ہی تھے۔ پہلے فلک پر چاند دوسرے پر عطارد، تیسرے پر زہرہ، چوتھے پر سورج، پانچویں پر مریخ، چھٹے پر مشتری اور ساتویں پر زحل ہے۔ ان سات افلاک کو سات سیاروں سے منسوب کیا گیا ہے۔ پھر ان کے اوپر آٹھواں فلک ہے جو کس فلک ہشتم، فلک ثوابت اور فلک البروج بھی کہتے ہیں۔ اس آٹھویں فلک کے دائرہ کو ١٢ حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کو ایک برج قرار دیا ہے۔ ٥۔ بطلیموسی نظریہ کے مطابق صرف سیارے ہی محو گردش نہیں بلکہ یہ افلاک بھی گردش کرتے ہیں۔ اور ان سیاروں اور افلاک کی گردش کے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ غالب کے درج ذیل شعر سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ رات دن گردش میں ہیں سات آسمان۔۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا اس آیت میں سیاروں کی گردش کا تو ذکر موجود ہے لیکن یہ بھی بتلا دیا گیا کہ یہ فلک (مدار) گردش نہیں کرتے۔