مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے، تو اللہ اسے اسکے لیے کئی گنا بڑھا دے، اور اللہ ہی تنگی دیتا ہے اور کشادگی عطا کرتا ہے، اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے
[٣٤٢] قرض حسنہ کےا جر میں اضافہ کی شرائط :۔قرض حسنہ سے مراد ایسا قرضہ ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے فقراء اور اقربا و مساکین کو دیا جائے اور ادائیگی کے لیے انہیں تنگ نہ کیا جائے، نہ ہی قرضہ دینے کے بعد انہیں جتلایا جائے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی بیگار لی جائے اور اگر مقروض فی الواقعہ تنگ دست اور ادائیگی سے معذور ہو تو اسے معاف ہی کردیا جائے اور اللہ کو قرض حسنہ دینے کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔ جس میں انفاق فی سبیل اللہ کی تمام صورتیں آ جاتی ہیں اور اس میں جہاد کی تیاری پر خرچ کرنا اور مجاہدین کی مالی امداد بھی شامل ہے اور مضمون کی مناسبت سے یہاں یہی صورت درست معلوم ہوتی ہے۔ ایسے قرضہ کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک بڑھا دیتے ہیں اور اس بڑھوتی کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ دل کی پوری خوشی کے ساتھ دیا جائے۔ نیز ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ خرچ کرنے سے تمہیں مال میں کمی آ جانے سے نہ ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ مال میں کمی بیشی ہونا تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور قرآن میں ہی ایک دوسرے مقام پر (٣٤ : ٣٩) فرمایا کہ جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا کر دے گا۔