سورة الأنبياء - آیت 1

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب (١) آگیا ہے، اور وہ اب تک غفلت میں پڑے، دین حق سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] آپ کا آخری نبی ہونا قرب قیامت ہے:۔ یعنی قیامت کا وقت قریب آگیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی آخرالزمان کی بعثت ہی اس بات کی علامت ہے کہ زمین میں بنی آدم کی آبادی کا آخری دور ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شہادت کی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : ’’میں اور قیامت ایسے ہی جیسے یہ دو انگلیاں‘‘ (بخاری : کتاب الرقاق، باب قول النبی بعثت انا والساعہ کھاتین۔۔) اس حدیث کے بھی دو مطلب ہیں : ایک یہ کہ جتنی لمبائی شہادت کی انگلی کی ہے۔ یہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کا زمانہ ہے اور جتنی وسطی انگلی شہادت کی انگلی سے بڑی ہے یہ مجھ سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے۔ اس لحاظ سے تقریباً پانچ حصے عرصہ گزر چکا ہے اور ایک حصہ باقی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں۔ اسی طرح میرے بعد تاقیامت کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی قریب قیامت کی علامت ہوئی۔ نیز اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب ہے اور موت کے ساتھ ہی ان کا حساب اور جزاء و سزا کام سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگرچہ یہ حساب اور جزاء و سزا کا سلسلہ قیامت کی نسبت بہت ہلکے پیمانہ پر ہوگا اور اس مطلب پر دلیل آپ کا یہ ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص مرگیا، اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ (مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن۔ باب فی قرب الساعۃ) [۲] یعنی پیغمبر تو انہیں ان کے برے انجام کی خبردے رہاہے لیکن وہ کچھ ایسے بدمست ہوئے ہیں کہ ایسی بات سننا بھی نہیں چاہتے ۔