وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور تم میں جو وفات پا جائیں، اور اپنے پیچھے اپنی بیویاں چھوڑ جائیں، وہ اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں (335) کہ وہ سال بھر فائدہ اٹھائیں، اور انہیں (شوہر کے گھر سے) نکالا نہ جائے، اگر وہ (خود ہی) نکل جائیں، اور نکاح کے بارے میں مناسب انداز میں کچھ کریں، تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اور اللہ زبردست اور بڑا صاحب حکمت ہے
[٣٣٧]بیوہ کے نان ونفقہ سےمتعلق احکام منسوخہ:۔ یہ حکم ابتدائے اسلام میں نازل ہوا تھا کہ مرتے وقت مرد اپنی بیویوں کے متعلق ورثاء کو ایسی وصیت کر جائیں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوہ کا حصہ مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے لیے تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ ہی سے ہوگا، اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔