سورة مريم - آیت 96

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بیشک جو لوگ ایمان لائے (٥٥) اور انہوں نے عمل صالح کیا، رحمن ان کی محبت سب کے دلوں میں جاگزیں کردے گا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٢] انبیاء اور صالحین سے لوگ محبت اور بدکرداروں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟:۔ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مجبور و مقہور تھے۔ قریشی سرداروں کے ہاتھوں ستم رسیدہ تھے اور ان کی نگاہوں میں حقیر تھے۔ اس آیت میں ان کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری بھی ہے اور پیشین گوئی بھی پھر ایک وقت آیا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالیٰ نے وہ عزت عطا فرمائی کہ سارا جہان ان سے محبت رکھنے اور ان کے گن گانے لگا۔ آج تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ بات صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہی مخصوص نہیں بلکہ جو بھی ایماندار اعمال صالحہ بجا لائے گا۔ ابتداء ً خواہ لوگ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں یا اسے اس راہ میں تکلیفیں بھی پہنچیں لیکن جلد ہی اللہ تعالیٰ انھیں عزت بخشیں گے اور لوگوں میں ان کی مقبولیت اور محبت پیدا ہوجائے گی۔ اس کے برعکس بے ایمان اور بدکردار لوگوں کی خواہ ابتدا میں کتنی ہی عزت ہو لیکن وہ با لآخر لوگوں کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔ اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوتا ہے اس کی تفسیر درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل کو پکار کرکہتے ہیں کہ میں فلاں بندے سے محبت رکھتا ہوں تم بھی اس سے محبت رکھو۔ پھر جبریل آسمان میں پکارتے ہیں۔ پھر اہل زمین میں اس کی محبت نازل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے اور جب اللہ کسی بندے سے ناراض ہوجاتے ہیں تو جبریل سے کہتے ہیں : میں فلاں بندے سے ناراض ہوں تم بھی اس سے ناراض ہوجاؤ۔ پھر یہی بغض اس کے لئے اہل زمین میں نازل کیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر)