سورة مريم - آیت 62

لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا ۖ وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اس میں وہ لوگ کوئی لغو بات نہیں سنیں گے صرف ایک دوسرے کو سلام کرتے ہوئے سنیں گے اور اس میں صبح و شام ان کی روزی انہیں ملتی رہے گی۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٧] لغو سے مراد :۔ بیہودہ بات سے مراد جھوٹی بات، غیبت، چغلی، تمسخر، فتنہ و فساد، یا شرارت کی بات، بے معنی بات یا گندی اور شہوانیت کی بات اور گالی گلوچ سب کچھ شامل ہے۔ گویا جنت کا معاشرہ ایسا پاکیزہ معاشرہ ہوگا کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی وہاں نہ پائی جائے گی اور لفظ سلٰما کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ میں مذکور ہے۔ اور اس لفظ کا دوسرا مطلب لفظ لغو کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یعنی اہل جنت آپس میں ایسے پیار، محبت اور خلوص سے رہیں گے جو ہر طرح کے معاشرتی عیوب و نقائص سے پاک ہوگا۔ اور ایسے پاکیزہ معاشرہ کی قدروقیمت صرف وہ آدمی جان سکتا ہے جو خود تو پاکیزہ خصلت ہو لیکن اسے کسی گندے معاشرے میں رہنا پڑا ہو۔ [٥٨] یعنی روحانی غذائیں بھی جیسے تسبیح و تہلیل اور ذکر و اذکار اور جسمانی بھی اور ان دونوں طرح کی غذاؤں کا ذکر کتاب و سنت میں بکثرت موجود ہے۔