قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا
بچے نے کہا، بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے انجیل دیا ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔
[٢٩] سیدنا عیسیٰ نے کلام فی المھد سے اپنی والدہ کی بہتان سے مکمل بریّت کردی :۔ تب اس نومولود بچے کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے قوت گویائی عطا فرمائی اور پہلی بات جو اس نے کی وہ یہ تھی کہ ’’میں اللہ کا بندہ ہوں‘‘ بالفاظ دیگر میں نہ اللہ ہوں اور نہ ابن اللہ ہوں اور یہ ایسی بنیادی بات تھی جو بعد میں اس کے پیروکاروں میں ہی متنازعہ فیہ بن گئی۔ کسی نے انھیں اللہ ہی کہہ دیا اور کسی نے اللہ کا بیٹا۔ آپ نے اپنے اس معجزانہ کلام کے آغاز میں ہی اس کی تردید فرما دی تھی۔ نیز یہ بھی بتایا کہ ’’اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور اپنا نبی بھی بنایا ہے‘‘ اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے مجھے کتاب تورات کا علم عطا فرمایا اور دوسرا یہ کہ اللہ مجھے کتاب انجیل بھی عطا فرمانے والا ہے اور نبوت بھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا یہ کلام دراصل ان کی سب بہتان تراشیوں کا مکمل جواب تھا اور اس کلام میں ان کی والدہ سیدہ مریم کی مکمل بریّت کا اظہار مقصود تھا یعنی اگر ایک نومولود بول سکتا ہے اور ایسا مبنی برحقیقت کلام کرسکتا ہے تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ پیدا بھی معجزانہ طور پر بن باپ کے ہوا ہو۔ بالفاظ دیگر اسی عمر میں ایسے کلام کرنے کے معجزہ سے معجزانہ پیدائش کی توثیق مقصود تھی۔