فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
دنیوی اور اخروی امور کے بارے میں اور آپ سے یتیموں (309) کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ جس میں ان کے مال کی اصلاح ہو، وہی بہتر ہے، اور اگر تم اپنا کھانا، ان کے کھانے کے ساتھ ملا دو گے (تو کوئی حرج نہیں) کیونکہ وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یتیم کے مال کو کون خراب کرنے والا ہے اور کون اس کی اصلاح کرنے والا ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت و پریشانی میں ڈال دیتا، بے شک اللہ زبردست اور بڑا صاحب حکمت ہے
[٢٩٣]یتیموں کی تربیت اورخیرخواہی :۔ اس سے پیشتر یتیموں کے بارے میں دو حکم نازل ہوچکے تھے۔ ایک یہ کہ ’’یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔‘‘ (٦: ١٥٢) اور دوسرا یہ کہ ’’جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔‘‘ (٤ : ١٠) لہٰذا مسلمان یتیموں کے بارے میں سخت محتاط ہوگئے اور ان کے مال اپنے مال سے بالکل الگ کردیئے کہ اسی سے ان کا کھانا پینا اور دوسری ضروریات پوری کی جائیں۔ مگر اس طرح بھی یتیموں کا بعض صورتوں میں نقصان ہوجاتا تھا۔ مثلاً ان کے لیے کھانا پکایا، جو کھانا بچ جاتا وہ ضائع ہوجاتا، ایسی ہی صورت حال سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا۔ جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اصل میں تو یتیموں کی اصلاح اور بھلائی مقصود ہے جس صورت میں وہ میسر آئے وہ تم اختیار کرسکتے ہو۔ اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملانا مناسب سمجھتے ہو تو بھی کوئی حرج نہیں، آخر وہ تمہارے ہی بھائی ہیں۔ یعنی تم ان کا مال ملا بھی سکتے ہو، الگ بھی کرسکتے ہو، کچھ مال ملا لو یا بعض حالتوں میں ان کا مال الگ کر دو، ہر صورت درست ہے۔ بشرطیکہ تمہاری اپنی نیت بخیر ہو اور اصل مقصود یتیم کی بھلائی ہو اور اللہ اسے خوب جانتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو کئی طرح کی پابندیاں عائد کر کے تم پر سختی کرسکتا تھا۔ یہ اس کی حکمت اور رحمت ہے کہ اس نے تمہیں ہر طرح کی صورت حال کی اجازت دے دی ہے۔