فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا
چنانچہ دونوں چل پڑے (٤٣) یہاں تک کہ جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو اس میں سوراخ کردیا، موسیٰ نے کہا، کیا آپ نے اس میں سوراخ اس لیے کردیا تاکہ اس میں سوار لوگوں کو ڈبو دیں، آپ نے ایک خطرناک کام کیا۔
[٦٢] سیدنا خضر سے جب ان دونوں کی ملاقات ہوگئی اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا خضر میں ابتدائی مکالمہ ہوا اس کے بعد سیدنا یوشع بن نون کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اگلا سفر صرف سیدنا موسیٰ اور سیدنا خضر نے کیا تھا۔ شاید سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سیدنا یوشع کو واپس بھیج دیا ہو۔ [٦٣] خضر نے کشی کا تختہ کیوں توڑا ؟ کشی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر ان دونوں سے کرایہ بھی نہ لیا اور کشتی میں سوار کرلیا۔ مگر جب یہ کشتی منزل مقصود کے قریب پہنچی تو سیدنا خضر نے کشتی کے پہلو سے ایک تختہ توڑ دیا۔ یہ شگاف نیچے پیندے میں نہ ڈالا گیا تھا۔ اس لیے کشتی جو پہلے ہی منزل مقصود پر پہنچنے والی تھی ڈوبنے سے تو بچ گئی مگر ڈوبنے کا خطرہ ضرور تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اعتراض صرف اس بنیاد پر نہ تھا کہ کشی والے ڈوب جائیں گے بلکہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کشتی والوں نے تو یہ احسان کیا کہ کرایہ بھی نہ لیا اور اس احسان کا بدلہ یوں دے رہے ہو کہ کشتی ہی کو عیب دار بنا دیا۔