وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا
اور اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کی خبر (١٣) کردی تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور یہ کہ قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس وقت لوگ ان کے معاملے میں آپس میں جھگڑنے لگے، کچھ لوگوں نے کہا کہ تم لوگ ان کے اوپر ایک مکان بنا دو، ان کا رب ان کے حال سے زیادہ واقف ہے، جو لوگ ان کے معاملے میں (دوسروں پر) غالب آگئے، انہوں نے کہا کہ ان کے اوپر ایک مسجد بنائیں گے۔
[١٩] سلطنت کی تبدیلی اور حالات کی سازگاری :۔ جب کھانا لانے والا شہر پہنچا تو وہاں دنیا ہی بدل چکی تھی۔ لوگوں کے تہذیب و تمدن، لباس اور وضع قطع میں نمایاں فرق واقع ہوچکا تھا۔ زبان میں خاصا فرق پڑگیا تھا اور جب لوگوں نے اس نوجوان کو دیکھا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے لیکن وہ ان سے گریز کرتا رہا پھر جب اس نے کھانا خریدنے کے وقت کئی صدیاں پہلے کا سکہ پیش کیا تو دکاندار اور آس پاس والے سب آدمی اس نوجوان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے انھیں یہ شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو پرانے زمانے کا کوئی دفینہ مل گیا ہے چنانچہ اسی شک و شبہ کی بنا پر لوگوں نے اسے پکڑ کر حکام بالا کے سامنے پیش کردیا اور جب اس نوجوان نے بھی اپنا بیان دیا تو یہ معاملہ کھلا کہ یہ تو وہی پیروان مسیح ہیں جو کئی صدیاں پیشتر یکدم روپوش ہوگئے تھے اور جن کا ریکارڈ اب تک سرکاری دفتروں میں منتقل ہوتا چلا آرہا تھا۔ یہ خبر آناً فاناً ساری عیسائی آبادی میں پھیل گئی جس بات سے وہ لوگ بچنا چاہتے تھے اللہ نے سب لوگوں کو ان کے حال سے باخبر کردیا۔ فرق یہ تھا کہ جب وہ مفرور اور روپوش ہوئے تھے اس وقت وہ معاشرہ اور حکومت کے مجرم تھے لیکن اس وقت وہ سب کی نظروں میں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے والے اور محترم تھے۔ [٢٠] بعث بعد الموت کے جھگڑے کی نوعیت روحانی ہوگا یا جسمانی ؟ ان دنوں اگرچہ سرکاری مذہب عیسائیت تھا اور عیسائی قیامت اور روز آخرت کے قائل ہوتے ہیں۔ تاہم روز قیامت کے متعلق عجیب عجیب قسم کی اور فلسفیانہ قسم کی بحثیں چھڑی ہوئی تھیں کچھ بےدین قسم کے لوگ تو سرے سے بعث بعد الموت کے منکر تھے جیسا کہ ہر مذہب میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں خواہ یہ انکار عملاً ہو یا قولاً بھی ہو۔ باقی بعث بعد الموت پر ایمان رکھنے والوں میں یہ اختلاف تھا کہ آیا یہ روحانی قسم کا ہوگا یا جسمانی قسم کا ؟ اور اس پر مناظرے بھی ہوتے تھے لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہونے پا رہا تھا۔ بادشاہ خود چاہتا تھا کہ اس اختلاف کا کوئی حتمی فیصلہ ہوجائے۔ انھیں ایام میں ان نوجوانوں کی دریافت والا مسئلہ سب کے سامنے آگیا جس نے جسمانی طور پر بعث بعد الموت کے عقدے کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیا۔ [٢١] مسجد کی تعمیر بطور یادگار :۔ اب یہ اصحاب کہف سب لوگوں کی نظروں میں محترم تھے اور اولیاء اللہ سمجھے جانے لگے تھے لوگوں نے ان سے غار میں جاکر ملاقات کی یا نہیں کی یا ان لوگوں نے غار سے نکل کر لوگوں کو علیک سلیک کی یا نہیں کی، یہ تفصیل کہیں بھی مذکور نہیں البتہ راجح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ کھانا لانے والا بھی واپس غار میں چلا گیا وہ پھر پہلے کی طرح لیٹ گئے اور وہیں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ سب مقدس ہستیاں تھیں لہٰذا اس غار پر کوئی یادگار عمارت تعمیر کردینا چاہیئے۔ اس بات پر پھر اختلاف ہوا کہ یہ یادگار تعمیر کس قسم کی ہو اور جو لوگ بااثر اور صاحب رسوخ تھے ان کی رائے ہی غالب آئی اور وہ رائے یہ تھی کہ اس غار کے پاس ایک مسجد یا عبادت خانہ یادگار کے طور پر بنادیا جائے جسے ان بااثر لوگوں نے خود بنانے کا ذمہ لیا۔ اس طرح اصحاب کہف کو اولیاء اللہ کی اور ان کی غار کو آستانے یا ان کے مقبرے کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ آستانوں یا خانقاہوں اور مزاروں وغیرہ کے قریب یا ان پر مسجد بنانا یا کسی مسجد میں کسی کو ولی اللہ سمجھ کر اس کی قبر بنادینا ایسے کام ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے وجہ یہ ہے کہ ایسے کاموں سے شرک کی بہت سی راہیں کھلتی ہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا پرانی شرکیہ رسم ہے :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بعض ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ انہوں نے حبشہ میں ''ماریہ'' نامی ایک کنیسہ (یہودیوں کی عبادت گاہ) دیکھا ہے جس میں مجسمے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب ان لوگوں میں سے کوئی صالح مرد مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے ایسے لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں‘‘ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ) اور اسی حدیث کو امام بخاری نے یوں ذکر کیا ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے ملک حبش میں دیکھا تھا اور اس میں مورتیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں کا قاعدہ یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی صالح آدمی مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں مورتیاں رکھ لیتے۔ قیامت کے دن اللہ کے ہاں یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الصلوۃ، باب ھل ے نبش قبور مشرکی اھل الجاھلیہ۔ نیز باب الصلوۃ فی البیعۃ) ٢۔ قبور سے تعلق رکھنے والی احادیث :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس مرض میں جس سے تندرست ہو کر نہیں اٹھے فرمایا : ’’یہود پر اللہ لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں یا سجدہ گاہیں بنا لیا‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بنالیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مرجع خاص و عام بنا دی جاتی۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کی وضاحت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھی۔ اس کی صورت یہ تھی کہ پیچھے قبر، اس سے آگے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رہائش اور اس سے آگے بیرونی دروازہ تھا اور قبر تک سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے لوگ جا ہی نہ سکتے تھے کیونکہ قبر کے پیچھے پھر دیوار تھی۔ اسی بنا پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرما رہی ہیں کہ اگر آپ کی قبر کے متعلق یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کچھ عرصہ گزرنے پر لوگ آپ کی قبر کو سجدہ کرنے لگیں گے تو بغرض زیارت پچھلی دیوار کھول دی جاتی۔ ٣۔ درج ذیل حدیث میں قبر پرست یہود کے علاوہ عیسائیوں کا بھی ذکر ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری آن پڑی اور وفات کی علامات ظاہر ہوئیں تو آپ اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ لیتے اور جب بیزاری بڑھتی تو اسے چہرے سے ہٹا دیتے اور یوں فرماتے : اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد یا سجدہ گاہیں بنا لیا۔ اس قول سے آپ ہمیں اس برے کام سے ڈراتے تھے جو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ٤۔ اور صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ میں سیدنا جندب کی جو روایت ہے اس میں نبیوں کے ساتھ ولیوں کی قبروں کا بھی ذکر ہے، الفاظ یہ ہیں : ’’سن لو! تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا، خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا۔ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں‘‘ ٥۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمام روئے زمین نماز کے قابل ہے سوائے قبرستان اور حمام کے“(ترمذی، ابو داؤد، دارمی، بحوالہ مشکوۃ، کتاب الصلٰوۃ باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ فصل ثانی) ٦۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا کہ ”میری قبر کو عید (عرس یا میلہ) نہ بنانا اور جہاں کہیں تم ہو وہیں سے درود پڑھ لیا کرو۔ تمہارا درود مجھے پہنچا دیا جاتا ہے‘‘ (نسائی بحوالہ مشکوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و فضلہا۔ فصل ثانی) ٧۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی فرمائی کہ : ’’یا اللہ! میری قبر کو وثن (آستانہ) نہ بنا دینا کہ لوگ آکر پوجا کرنے لگیں‘‘ (مالک، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الصلوٰۃ، باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ، تیسری فصل) ان سب احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر، مقبرہ، مزار، روضہ، آستانہ پر لوگوں کے اس کو مقدس سمجھ کر جمع ہونے، ان پر عرس یا میلہ لگانے حتیٰ کہ وہاں نماز ادا کرنے سے بھی منع فرما دیا ہے۔ کسی قبر یا مزار یا آستانہ پر مسجد بنانا حرام ہے کیونکہ یہ کام محض صاحب قبر کی تعظیم کی وجہ سے کیا جاتا ہے اور قبرستان میں نماز نہیں ہوتی جبکہ ہمارے ہاں دستور یہ ہے کہ ہر مزار پر مسجد ہوتی ہے یا مسجد میں ہی کسی بزرگ کو دفن کردیا جاتا ہے۔ ایسی سب صورتیں ممنوع ہیں، مزاروں پر جو لوگ اکٹھے ہوتے ہیں وہ ان بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ہی وہاں جاتے ہیں۔ نیز ایسے آداب یا عبادات بجالاتے ہیں جو صرف اللہ کے لیے سزاوار ہیں یابیت اللہ کے لیے مثلاً وہاں نذریں، نیازیں یعنی مالی قربانی بھی دیتے ہیں۔ قبروں کی صفائی، انھیں مزیں کرنا، ان پر چراغاں کرنا سب شرعاً حرام ہیں جو وہاں بجا لاتے ہیں اور بعض بدبخت تو قبروں کا بیت اللہ کی طرح طواف کرتے، غلاف چڑھاتے حتیٰ کہ سجدہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور غالباً یہی وجوہ ہیں جن کی بنا پر قبرستان میں نماز کو ممنوع اور مزارات اور آستانوں کی تعمیر کو حرام قرار دیا گیا ہے اور آج کل تو بعض مزارات پر عرس کے بجائے حج کے پورے مناسک بھی ادا کیے جاتے ہیں اور اسے حج ہی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔