وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا
اور آپ انہیں بیدار (١١) سمجھتے حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے اور ہم انہیں دائیں اور بائیں پلٹتے رہتے تھے اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں بازو پھیلائے ہوئے تھا، اگر آپ ان کی طرف جھانک لیتے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑتے، اور ان کی کیفیت دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے۔
[١٧] سونے والوں اور پہرہ دار کتے کی آنکھیں بھی کھلی رہتی تھیں :۔ اگرچہ ان لوگوں پر گہری نیند کا غلبہ تھا تاہم ان کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں جس سے دیکھنے والے کو یہ شبہ پڑتا تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں سوئے ہوئے نہیں ہیں پھر غار کے دہانے پر ان کا محافظ کتا بھی ایسے بیٹھا تھا جیسے جاگنے کی حالت میں کتے بیٹھتے ہیں۔ اس کی آنکھیں بھی کھلی تھیں اور ادھر سے کسی کا گزر ہوتا تو اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ غار کے اندر کوئی ڈاکو چھپے بیٹھے ہیں اور یہ کتا ان کی رکھوالی کر رہا ہے اگر کوئی ان کے نزدیک گیا تو یہ کتا پھاڑنے اور کاٹنے کو آئے گا اور اس کی آواز سے اس کا مالک خبردار ہو کر ممکن ہے حملہ کر دے گویا یہ ایسا وحشت ناک منظر اور تصور تھا کہ وہاں کوئی نزدیک جانے کی جرأت بھی نہ کرتا تھا اور نیند کے اس طویل عرصہ کے دوران ان کی کیفیت بالکل ویسی ہی تھی جیسے ایک عام حالت میں سونے والے کی ہوتی ہے اور وہ حسب ضرورت اور بہ تقاضائے جسم نیند کی حالت میں دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں اپنی کروٹ بدلتا رہتا ہے۔