وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں (٦٥) دی تھیں، تو آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے جب وہ ان کے پاس (اللہ کا پیغام لے کر) آئے تو ان سے فرعون نے کہا اے موسیٰ مجھے یقین ہے کہ تم پر جادو کردیا گیا ہے۔
[١١٩] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے نو معجزات :۔ یہ نو واضح آیات یا معجزے قرآن کریم میں سورۃ اعراف میں مذکور ہیں اور یہ ہیں عصائے ١ موسیٰ، ید ٢ بیضا، بھری مجلس ٣ میں برسرعام جادوگروں کی شکست، سارے ملک میں قحط واقع ہونا، یکے بعد دیگر طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں، اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔ یہ ایسے واضح معجزات تھے جو سیدنا موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر بھی واضح دلائل تھے اور ان کے قلبی اطمینان کے لیے بھی کافی تھے لیکن وہ پھر بھی ایمان نہ لائے اس کی وجہ بھی وہی ہے جو اوپر کے حاشیہ میں مذکور ہوئی ہے۔ قریش کا بھی یہی حال تھا۔ کچھ معجزات تو وہ دیکھ چکے تھے مگر ایمان نہ لائے تھے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر ان کے مطلوبہ معجزات دکھلا بھی دیئے جائیں تو یہ بھی فرعونیوں کی طرح ایمان لانے کی طرف کبھی نہ آئیں گے۔ علاوہ ازیں ان نو واضح آیات سے متعلق ترمذی میں ایک حدیث ہے جو درج ذیل ہے : صفوان بن عسال مرادی سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے دوسرے سے کہا ’’آؤ اس نبی کے پاس چلیں اور اس سے کچھ پوچھیں‘‘ وہ کہنے لگا ’’اسے نبی نہ کہو، اگر اس نے یہ بات سن لی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں گی‘‘ چنانچہ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا کہ ”موسیٰ علیہ السلام کو کون سی نو واضح آیات دی گئی تھیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، زنا نہ کرو، جس جان کو اللہ نے مارنا حرام قرار دیا ہے اسے ناحق نہ مارو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بے قصور کو سلطان کے ہاں نہ لے جاؤ کہ وہ اسے مار ڈالے، کسی پاکدامنہ پر تہمت نہ لگاؤ، جنگ سے فرار نہ کرو۔ راوی شعبہ کو شک ہے کہ نویں بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہی کہ اے یہود! نویں بات خالصتاً تمہارے لیے ہے کہ ہفتہ کے دن میں زیادتی نہ کرو‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’پھر کون سی چیز تمہارے اسلام لانے میں مانع ہے؟‘‘ کہنے لگے’’داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ نبی انہی کی اولاد سے ہو۔ نیز ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہوگئے تو یہود ہمیں مار ڈالیں گے‘‘ (ترمذی ابو اب التفسیر) اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے راوی عبداللہ بن مسلمہ کی وجہ سے مجروح قرار دیا ہے اور تطبیق کی یہ صورت پیش کی ہے کہ شاید یہود نے ان احکام عشرہ کے متعلق پوچھا ہو جو تورات کے شروع میں بطور وصایا لکھے جاتے تھے۔ [١٢٠] فرعون کی نظروں میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سحر زدگی یا دیوانگی یہ تھی کہ آپ نے اس سے برملا بنی اسرائیل کی آزادی اور انھیں اپنے ہمراہ بھیجنے کا مطالبہ کردیا۔ کیونکہ وہ خود کو ایسا شہنشاہ سمجھتا تھا جو اپنی تمام رعایا کے سیاہ و سپید کا مالک بنا بیٹھا تھا اور از راہ تکبر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دعٰوئے نبوت اور اس مطالبہ کو دیوانگی پر محمول کرتا تھا اور بعض لوگوں نے یہاں مسحور سے مراد ساحر لیا ہے جیسا کہ فرعون اپنی رعایا کو یہی یقین دلانا چاہتا تھا۔