سورة الإسراء - آیت 100

قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجیے کہ اگر میرے رب کی رحمت کے خزانے (٦٤) تمہارے اختیار میں ہوتے، تو خرچ ہوجانے کے ڈر سے تم اپنا ہاتھ روک لیتے اور انسان بخیل واقع ہوا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٨] کفار مکہ کی تنگ نظری اور انسان کی فطرت :۔ قریشی سردار جو آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے تھے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے اور نہ یہ تھی کہ انھیں دعوت دین کے دلائل کی سمجھ نہیں آتی تھی بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیتے تو ان کی سرداریاں اور چودھراہٹیں انھیں چھنتی نظر آ رہی تھیں۔ اور انھیں پیغمبر اسلام کے تابع ہو کر رہنا پڑتا تھا۔ نیز اگر اسلام پھیل جاتا تو انھیں کعبہ کی تولیت کی وجہ سے عرب بھر میں جو عزت اور وقار حاصل تھا وہ بھی ان سے چھنتا نظر آرہا تھا۔ لہٰذا ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام کا خاتمہ ہی کردیا جائے اور حقیقتاً انسان ایسا ہی بخیل واقع ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے مقابلے پر سر نہ نکالے۔ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ اگر ان کے پاس زمین بھر کے خزانے بھی ہوں تو ان کا یہ حال ہے کہ وہ کسی کو پھوٹی کوڑی نہ دیں۔ مبادا کہ وہ کسی وقت ان کے مقابلہ پر آجائے۔ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ ہر طرح کے خزانے اسی کے پاس ہیں اور جس کسی پر جس طرح کا چاہے فضل کرتا رہتا ہے۔