سورة الإسراء - آیت 78

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ زوال آفتاب کے وقت سے رات کی تاریکی تک نماز قائم (٤٧) کیجیے، اور فجر کی نماز میں قرآن پڑھیئے، بیشک فجر میں قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کی حاضری کا وقت ہوتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٦] پانچ نمازوں کا ذکر :۔ معراج کی رات پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ اس آیت میں ان نمازوں کے اوقات کا ذکر ہے۔ چار نمازیں یعنی ظہر، عصر، مغرب اور عشاء تو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک ہوئیں اور پانچویں نماز پوپھٹنے یا طلوع آفتاب سے پیشتر ہے۔ اس سے پہلی آیت میں کفار کی ایذا رسانیوں اور ان سے متعلق اللہ کے دستور کا ذکر تھا۔ یہاں نمازوں کا ذکر اس وجہ سے لایا گیا ہے اور مشکلات اور مصائب کے وقت صبر اور نماز سے ہی مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ نماز سے تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اور مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہوجانے کی قوت پیدا ہوتی ہے ان پانچ نمازوں کے اوقات کا اس آیت میں مجملاً ذکر آیا ہے تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٠٣ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔ نمازوں کے اوقات کی تعیین میں مصلحت :۔ مشرکوں اور بت پرستوں کی اکثریت ایسی رہی ہے کہ جو سورج کو ایک بڑا طاقتور دیوتا تسلیم کرتی اور اس کی پوجا پاٹ کرتی رہی ہے۔ یہ لوگ بالخصوص تین اوقات میں پرستش کرتے تھے۔ سورج چڑھنے کے وقت سر پر آنے کے وقت اور غروب ہونے کے وقت۔ لہٰذا ان اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی ادائیگی سے منع فرما دیا خواہ یہ نماز نوافل ہوں یا کسی نماز کی قضا ہو۔ علاوہ ازیں سورج کی پرستش۔ اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے یعنی دھوپ میں گرمی آنے سے لے کر نصف النہار تک۔ لہٰذا ان اوقات میں کوئی نماز نہیں رکھی گئی تاکہ ان سورج پرستوں سے اوقات میں بھی مشابہت نہ ہونے پائے۔ بلکہ ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے سختی سے روک دیا گیا۔ [٩٧] فجر کی نماز کو قرآن الفجر کیوں کہا گیا :۔ قرآن الفجر سے مراد نماز فجر ہے۔ اہل عرب میں یہ دستور عام ہے کہ وہ کسی چیز کا جزو اشرف بول کر اس سے مراد کل لے لیتے ہیں۔ اسی دستور کے مطابق یہاں قرآن کا لفظ آیا ہے۔ کیونکہ کوئی نماز ایسی ہی نہیں جس کی ہر رکعت میں کم از کم سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جاتی ہو۔ اسی طرح قرآن میں نماز کے لیے کہیں صرف رکوع کا ذکر آیا ہے اور کہیں صرف سجود کا اور نماز فجر کے ساتھ بالخصوص قرآن کا ذکر اس لیے ہے کہ اس نماز میں قرآن کی قرأت دوسری نمازوں کی نسبت لمبی ہوتی ہے اور مشہود سے مراد یہ ہے کہ اس نماز کے دوران فرشتے بھی حاضر ہوتے اور قرآن سنتے ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’نماز باجماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہوجاتے ہیں‘‘ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ ﴿وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا ﴾ (بخاری، کتاب التفسیر نیز کتاب الاذان۔ باب فضل صلوۃ الفجر فی جماعۃ)