يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا
جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے پیشواؤں (٤٢) کے نام کے ساتھ پکاریں گے اس دن جن لوگوں کو ان کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ انہیں پڑھیں گے اور ایک دھاگے کے برابر ان پر ظلم نہیں ہوگا۔
[٨٩] امام سے مراد کسی امت کا نبی بھی ہوسکتا ہے اور وہ شخص بھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد پیشوا سمجھا گیا ہو۔ اور یہ بلانا اس طرح ہوگا : اے موسیٰ کی امت، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت، اے عیسیٰ علیہ السلام کی امت یا اے قرآن والو! اے انجیل والو، اے تورات والو، اسی طرح ہر گروہ والوں کو اس گروہ کے بانی کے نام سے پکارا جائے گا۔ [٩٠] اللہ کے فرمانبرداروں کو ان کا اعمال نامہ سامنے سے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہ ایک حسی مشاہدہ ہوگا جسے دیکھ کر ہر شخص اس کے جنتی ہونے کا اندازہ لگا سکے گا۔ ایسے شخص بہت خوش و خرم ہوں گے اور خوشی سے اپنا اعمال نامہ دوسروں کو بھی پڑھنے کو کہیں گے اور انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا اجر مل جائے گا لیکن جس شخص کو اس کا اعمال نامہ پیچھے کی طرف سے دائیں ہاتھ میں تھما یا گیا اسے بھی فوراً اپنا انجام معلوم ہوجائے گا وہ اپنا اعمال نامہ چھپانا چاہے گا اور کہے گا کاش! مجھے یہ دیا ہی نہ جاتا۔ [٩١] فتیلا اس باریک سے دھاگے کو بھی کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں ہوتا ہے اور اس لفظ سے بہت تھوڑی مقدار مراد لی جاتی ہے یعنی ہر ایک کو قیامت کے دن اس کی محنت کا پورا صلہ بلکہ اس سے زیادہ بھی ملے گا۔ لیکن مجرموں کو ان کے گناہوں سے ذرہ بھر بھی زیادہ سزا نہ دی جائے گی۔