سورة الإسراء - آیت 67

وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب تمہیں سمندر میں تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کے سوا وہ تمام معبود جنہیں تم پکارتے رہے تھے گم ہوجاتے ہیں پھر جب وہ تمہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو اس سے روگردانی کرلیتے ہو (حقیقت یہ ہے کہ) انسان بڑا ہی ناشکر گزار ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٦] گرداب میں صرف اللہ کو پکارنا :۔ شیطانی اغوا کی کیفیت بیان کرنے کے بعد پھر سے توحید کے اثبات اور شرک کی تردید پر دلائل ذکر کیے جارہے ہیں۔ مشرکین مکہ کی عادت تھی کہ جب ان کی کشتی گرداب میں پھنس جاتی یا سمندر کے طوفانی تھپیڑے کشتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور کشتی والوں کو سب ظاہری اسباب ختم ہوتے نظر آنے لگتے تو اس وقت وہ صرف ایک اللہ کو پکارتے اور اپنے دوسرے سب معبودوں کو بھول جاتے تھے۔ اسی فطری داعیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور مختار کل ہونے کے ثبوت پر پیش فرمایا ہے اور باقی معبودوں کی تردید کی ہے مگر آج کا مشرک اس دور کے مشرکوں سے اپنے شرک میں پختہ تر نظر آتا ہے وہ اس آڑے وقت میں بھی ’’یا بہاول الحق، بیڑا بنے دھک‘‘ (یعنی اے بہاول الحق! یہ کشتی پار لگا دو) کا نعرہ لگاتا ہے۔﴿قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ﴾ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سورۃ یونس کے حاشیہ نمبر ٣٤ میں ملاحظہ فرمائیے۔