قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا
(نیز) کہا، دیکھا تو نے ! یہ (آدم) جسے تو نے میرے مقابلے میں عزت دی ہے اگر تو نے مجھے قیامت کے دن تک کی مہلت دی تو کچھ کے سوا میں اس کی پوری نسل کو ہلاک کردوں گا۔
[٧٨] قصۂ آدم و ابلیس پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٣٠ تا ٣٩، سورۃ انعام آیت نمبر ١١ تا ٢٥، سورۃ الحجر آیت نمبر ٢٦ تا ٤٢ میں گذر چکا ہے۔ ان آیات کے حواشی بھی ملحوظ رکھے جائیں۔ [٧٩] ابلیس کا آدم پر قابو پانے کا دعوی :۔ احتنک الفرس بمعنی گھوڑے کے منہ میں رسی یا لگام دینا اور المحنک اس آدمی کو کہتے ہیں جسے زمانہ نے تجربہ کار بنا دیا ہو (منجد) گویا احتنک کے معنی کسی پر عقل اور تجربہ سے قابو پانا ہے اور شیطان کا دعویٰ یہ تھا کہ آدم اچھی طرح میرا دیکھا بھالا ہے اور میں اس پر اور اس کی اولاد پر پوری طرح قابو پاسکتا ہوں۔