سورة الإسراء - آیت 59

وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور نشانیاں (٣٨) بھیجنے سے ہمیں اس بات نے روک دیا ہے کہ گزشتہ قومیں ایسی نشانیوں کو جھٹلاتے رہی ہیں، اور ہم نے ثمود کو واضح نشانی کے طور پر اونٹنی دی تھی، تو انہوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی اور ہم ایسی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجا کرتے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٣] یعنی جب ضدی اور ہٹ دھرم لوگ کوئی حسی معجزہ یا اپنا فرمائشی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے تو اس صورت میں ان پر عذاب الٰہی کا نزول لازم ہوجاتا ہے۔ مگر چونکہ ہم مکہ کے رہنے والوں کو ایسے عذاب سے ہلاک نہیں کرنا چاہتے۔ اور ان کے زندہ رہنے اور رکھنے میں بہت سی حکمتیں مضمر ہیں لہٰذا انھیں ان کا فرمائشی معجزہ نہ دینے میں ہی مصلحت اور ان کی عافیت ہے۔ [٧٤] معجزہ دکھانے کا مقصد محض خوف دلانا ہوتا ہے :۔ قوم ثمود کے حالات ان کے سامنے ہیں۔ انہوں نے فرمائشی اور حسی معجزہ طلب کیا تھا۔ یہ معجزہ دیکھنے کے باوجود وہ ایمان نہ لائے۔ تو اس کے نتیجہ میں انھیں تباہ کردیا گیا۔ حالانکہ فرمائشی معجزہ کو پورا کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ پر زبردست دلیل ہے۔ پھر ایسا معجزہ دیکھ کر بھی جو ایمان نہ لائے اور اس کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا نہ ہو تو ایسے لوگوں کا علاج یہی ہے کہ انھیں کسی دردناک عذاب سے تباہ کر ڈالا جائے۔