سورة الإسراء - آیت 57

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کی طرف اسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ کون اس کے زیادہ قریب ہوجائے اور اس کی رحمت کی امید کرتے ہیں، اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک آپ کے رب کا عذاب ایسا ہے جس سے ڈرا جاتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٠] اس آیت میں بالخصوص ایسے معبودوں کا ذکر ہے جو جاندار ہیں۔ پتھر کے بت اس آیت کے مضمون سے خارج ہیں۔ یعنی فرشتے یا جن یا فوت شدہ انبیاء و صالحین ہی اس سے مراد لیے جاسکتے ہیں۔ اور بتایا یہ جارہا ہے کہ تم ان ہستیوں کو اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے وسیلہ بناتے ہو جو خود ساری زندگی اس جستجو میں رہے کہ اللہ کے زیادہ سے زیادہ فرمانبردار بندے بن کر اس کا قرب حاصل کریں اور وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی رہے لہٰذا تمہیں بھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور اللہ کے زیادہ سے زیادہ فرمانبردار بن کر اور اعمال صالحہ بجا لا کر ان اعمال کے ذریعہ یا وسیلہ سے اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر آپ اپنے حق میں دعا کرسکتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے : نیک اعمال کو وسیلہ بنانا اور دعا مانگنا :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں سے تین شخص کہیں جارہے تھے کہ انھیں بارش نے آلیا۔ انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ اوپر سے ایک پتھر گرا اور غار کا منہ بند ہوگیا۔ وہ آپس میں کہنے لگے : اللہ کی قسم! اب تو (اس مصیبت سے) تمہیں سچائی ہی بچا سکتی ہے لہٰذا ہم میں سے ہر شخص اپنے عمل کا ذکر کرکے اللہ سے دعا کرے جو اس نے صدق نیت سے کیا ہو۔ ان میں سے ایک نے کہا : اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں نے ایک فرق (تین صاع) چاول پر ایک مزدور رکھا وہ (ناراض ہو کر) چلا گیا اور اپنی مزدوری چھوڑ گیا۔ میں نے ان چاولوں کا یہ کیا کہ ان سے کھیتی باڑی کی۔ پھر اس میں اتنا فائدہ ہوا کہ میں نے گائے بیل خرید لیے (مدت کے بعد) وہ مزدور اپنی مزدوری مانگنے آیا تو میں نے اسے کہا جاؤ ’’وہ سب بیل لے جاؤ‘‘ اس نے کہا ’’میرے تو تیرے پاس صرف ایک فرق چاول تھے‘‘ میں نے کہا ’’انہی چاولوں سے (کھیتی کرکے) میں نے یہ گائے بیل خریدے ہیں‘‘ چنانچہ وہ انھیں لے گیا۔ یا اللہ! تو خوب جانتا ہے اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مصیبت دور کردے۔ چنانچہ وہ پتھر سرک گیا۔ دوسرے نے کہا ’’یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے اور میں ہر رات ان کے لیے بکریوں کا دودھ لاتا۔ ایک رات مجھے کافی دیر ہوگئی اور وہ دونوں سوگئے۔ میرے بیوی بچے بھوک سے چلاتے رہے۔ میری عادت تھی کہ میں اپنے والدین کو دودھ پلاتا پھر اپنے بیوی بچوں کو، میں نے انھیں جگانا مناسب نہ سمجھا اور نہ اس بات کو گوارا کیا کہ انھیں چھوڑ کر چلا جاؤں اور وہ دودھ کے انتظار میں پڑے رہیں اور میں پو پھٹنے تک ان کا انتظار کرتا رہا۔ یا اللہ تو خوب جانتا ہے اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مصیبت دور کردے۔‘‘ اس وقت وہ پتھر اور سرک گیا۔ یہاں کہ انھیں آسمان دکھائی دینے لگا۔ تیسرے نے کہا : یا اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد بہن تھی جسے میں سب سے زیادہ چاہتا تھا۔ میں نے ایک دفعہ اس سے صحبت کرنا چاہی تو اس نے انکار کردیا۔ اِلا یہ کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں کوشش کرکے سو دینار لے آیا اور اس کو دے دیئے۔ اس نے اپنے تئیں میرے حوالے کردیا اور جب میں (صحبت کے لیے) اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھ گیا تو وہ کہنے لگی ’’اللہ سے ڈرو اور مہر کو ناحق طور سے نہ توڑو‘‘ میں کھڑا ہوگیا اور سو دینار بھی چھوڑ دیئے۔ یا اللہ اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہماری مشکل کو دور کردے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی مصیبت کو دور کردیا اور وہ باہر نکل آئے۔ (بخاری، کتاب الانبیاء۔ باب حدیث الغار) [٧١] ایمان کا تقاضا اللہ سے امید بھی اور خوف بھی :۔ یعنی اعمال صالحہ بجا لانے اور ان کے اجر کی امید رکھنے کے باوجود اللہ سے ڈرتے بھی رہنا چاہیے کہ شاید ان اعمال میں کوئی تقصیر نہ ہوگئی ہو۔ اور بعض دفعہ انسان اس دنیا میں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بھی دھر لیا جاتا ہے جیسے کسی نے اس پر جھوٹا مقدمہ بنا دیا یا کوئی تہمت لگا دی۔ اور یہ بھی اللہ کے عذاب ہی کی قسم ہے اور اس کی مشیئت سے ہی واقع ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی رہنا چاہیے۔