سورة الإسراء - آیت 47

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰ إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہ لوگ جب آپ کی طرف کان لگاتے ہیں تو جو بات سننی (٣٢) چاہتے ہیں اسے ہم خوب جانتے ہیں اور جب یہ ظالم آپس میں سرگوشی کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم لوگ تو محض ایک ایسے آدمی کی پیروی کر رہے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٧] کافروں کے قرآن کو غور سے سننے کی وجہ :۔ یعنی اگر وہ آپ کی باتیں غور سے سنتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ انھیں ہدایت نصیب ہو بلکہ اس لیے سنتے ہیں کہ کوئی ایسا نکتہ یا پوائنٹ ہاتھ آجائے جس کی بنا پر یا تو اس نبی کی تکذیب کرسکیں یا اس کا مضحکہ اڑا سکیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی باتوں کی تلاش ہو تو غور سے سننا ہی پڑتا ہے۔ [٥٨] قریش مکہ نے یہ پابندی لگا رکھی تھی کہ ان کا کوئی شخص قرآن نہیں سنے گا لیکن اس کلام میں کچھ حلاوت اور دل نشینی اس قسم کی تھی کہ وہ اپنی عائد کردہ پابندی خود بھی نبھا نہ سکتے تھے اور چوری چھپے رات کے اندھیروں میں قرآن سن لیا کرتے پھر جب کسی ایک کو دوسرے پر یہ شک پڑجاتا ہے کہ اس نے قرآن سنا ہے۔ تو وہ آپس میں یہ کہتے تھے کہ کس شخص کی بات کرتے ہو جو خود سحر زدہ ہے اور عجیب طرح کی باتیں کرتا ہے۔