سورة الإسراء - آیت 29

وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ اپنے ہاتھ کو (بخل کی وجہ سے) اپنی گردن سے بندھا ہوا (١٨) نہ رکھیے اور نہ (فضول خرچ بن کر) اسے بالکل ہی کھول دیجیے ورنہ آپ لوگوں کی ملامت کے مستحق اور محتاجی سے تھکے ہارے ہوجائیں گے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٤] خرچ کرنے میں اعتدال :۔ اپنا ہاتھ گردن سے باندھنا محاورہ ہے جس کا معنی ہے بخل کرنا۔ یعنی خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لینا چاہیے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کردینا چاہیے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے اور خود انسان تکلیف میں پڑجائے۔ خواہ یہ خرچ اپنی ضرورت کے سلسلہ میں ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کی صورت ہو۔ انفاق فی سبیل اللہ کی سب سے اونچی حد یہ ہے کہ ’’وہ سب کچھ خرچ کردیا جائے جو ضرورت سے زائد ہو‘‘ (٢: ٢١٩) یعنی اس فرمان الٰہی میں بھی ضرورت سے زائد مال کو خرچ کرنے کے لیے کہا گیا ہے سارا نہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”الصدقۃ عن ظھر غنی“ یعنی وہ صدقہ جس کے بعد آدمی خود محتاج یا صدقہ لینے کے قابل نہ ہوجائے۔ (بخاری) نیز حدیث میں ہے کہ جو میانہ روی اختیار کرے وہ محتاج نہیں ہوتا۔