سورة الإسراء - آیت 9

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بیشک یہ قرآن (٤) اس راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھی ہے (یعنی اسلام کی طرف) اور ان مومنوں کو خوشخبری دیتا ہے جو عمل صالح کرتے ہیں کہ یقینا ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩۔ الف] اس سے پہلے تورات کا ذکر ہو رہا تھا جس پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل پر متعدد بار دینی اور دنیوی مصائب نازل ہوئے۔ درآں حا لیکہ انھیں پہلے سے ہی متنبہ کردیا گیا تھا کہ اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو تمہارا ایسا انجام ہوگا اس کے بعد قرآن مجید کے متعلق دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک یہ کہ تمام دینی اور دنیاوی معاملات میں جو کچھ بھی اچھے سے اچھے دستور اور منزل مقصود کا جو راستہ سب سے سیدھا ہے اسی کی طرف یہ قرآن رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن نے انسان کی ہدایت پھر اس کی سعادت اور شقاوت سے متعلق کوئی بات نہیں چھوڑی۔ دوسرے یہ کہ اچھے اور برے کاموں کے انجام سے بھی پوری تفصیل سے آگاہ کرتا ہے جس کا ظہور عالم آخرت میں ہوگا جبکہ تورات میں آخرت سے متعلق بہت کم تفصیلات دی گئی تھیں۔ قرآن میں کیا کچھ خوبیاں اور کمالات ہیں جو درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ قرآن بہترین کلام کیسے ہیں؟ حارث اعور کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا دیکھئے یہ لوگ کیسی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سن لو! عنقریب ایک فتنہ بپا ہوگا‘‘ میں نے پوچھا۔ ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فتنہ سے بچاؤ کی کیا صورت ہے؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس سے بچاؤ کی صورت اللہ کی کتاب ہے جس میں تم سے پہلے لوگوں کے بھی حالات ہیں اور بعد والوں کے بھی اور تمہارے باہمی معاملات کے متعلق حکم بھی ہے۔ وہ دو ٹوک بات کہتا ہے ہنسی مذاق کی بات نہیں کہتا۔ جس نے اسے حقیر سمجھ کر چھوڑ دیا اللہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ اور جس نے قرآن کے علاوہ دوسری چیزوں سے راہ ڈھونڈھی اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے اور حکمتوں سے لبریز نصیحت ہے وہی صراط مستقیم ہے جس سے خواہشات کجرو نہیں ہوتیں اور لوگوں کی زبانیں اسے مشکوک نہیں بناتیں۔ اس سے عالم لوگ سیر نہیں ہوتے، اسے باربار پڑھنے سے جی نہیں اکتاتا نہ وہ پرانا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے عجائبات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ قرآن ایسی کتاب ہے کہ جب اسے جنوں نے سنا تو فوراً بول اٹھے کہ ہم نے عجیب قرآں سنا ہے سو ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جس نے قرآن کے مطابق کلام کیا اس نے سچ کہا اور جس نے اس کے مطابق عمل کیا اسے اجر دیا جائے گا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا اور جس نے لوگوں کو قرآن کی طرف بلایا اسے سیدھی راہ دکھلا دی گئی۔ اعور! یہ باتیں خوب یاد رکھ لو۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب فی فضل القرآن)