الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
حج کے چند معلوم مہینے (282) ہیں، جس نے ان مہینوں میں اپنے اوپر حج کو فرض کرلیا وہ اثنائے حج جماع اور اس کے متعلقات، گناہ اور جنگ و جدال سے اجتناب کرے، اور تم جو نیکی بھی کرو گے اللہ سے جانتا ہے اور زاد راہ (283) (سفر کا خرچ) لے لیا کرو، بے شک سب سے اچھا زاد راہ سوال سے بچنا ہے، اور اے عقل والو، مجھ سے ڈرتے رہو۔
[٢٦٤] یعنی یکم شوال سے دس ذی الحجہ تک کی مدت کا نام اشہر حج ہے۔ حج کا احرام اسی مدت کے اندر اندر باندھا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی اس سے پہلے باندھے تو وہ ناجائز یا مکروہ ہوگا البتہ عمرہ کا احرام باندھا جا سکتا ہے۔ احرام باندھنے کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔احرام باندھنےکےمسائل:۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا ہو کر پوچھنے لگا ’’یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم احرام کہاں سے باندھیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مدینہ والے ذوالحلیفہ سے باندھیں، شام والے جحفہ سے اور نجد والے قرن (منازل) سے اور یمن والے یلملم سے۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم، باب ذکر العلم و الفتیا فی المسجد) ٢۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا :’’ محرم کیا پہنے؟ فرمایا : وہ نہ قمیض پہنے نہ عمامہ، نہ ٹوپی اور نہ وہ کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگا ہو اور اگر چپل نہ ملے تو موزے ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ کر پہن لے۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ من اجاب السائل باکثر مما سألہ) [٢٦٥]حج مبرورکی فضیلت:۔ ہر وہ حرکت یا کلام جو شہوت کو اکساتا ہو رفث کہلاتا ہے اور اس میں جماع بھی شامل ہے، فسوق اور جدال اور ایسے ہی دوسرے معصیت کے کام اگرچہ بجائے خود ناجائز ہیں تاہم احرام کی حالت میں ان کا گناہ اور بھی سخت ہوجاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے اللہ کے لیے حج کیا پھر اس دوران نہ بے حیائی کی کوئی بات کی اور نہ گناہ کا کوئی کام کیا۔ وہ ایسے واپس ہوتا ہے جیسے اس دن تھا جب وہ پیدا ہوا۔‘‘ (بخاری، کتاب المناسک، باب فضل الحج المبرور) [٢٦٦] مانگنےکی قباحت:۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ’’یمن کے لوگ حج کے لیے آتے لیکن زاد راہ ساتھ نہ لاتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ پھر مکہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کردیتے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب المناسک، باب قول اللہ تعالیٰ آیت و تزودوا فان خیر الزاد التقوی) نیز ضرورت کے وقت مانگنا اگرچہ ناجائز نہیں، مگر اسلام نے سوال کرنے کو اچھا نہیں سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ’’دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب لا صدقہ الا عن ظہر غنی) اور بلا ضرورت مانگنا اور پیشہ کے طور پر مانگنا تو بدترین جرم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مانگنے کو عادت بنا لے گا وہ قیامت کو اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ رہے گا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب من سال الناس تکثرا) سوال سے اجتناب کے لیے دیکھیے اسی سورۃ کی آیت ٢٧٣ اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ١٠١ کے حواشی)