وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِن دُونِي وَكِيلًا
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (٢) (تورات) دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا (اور ان سے کہا) تم سب میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بناؤ۔
[٤] جن دنوں اسراء کا واقعہ پیش آیا اس وقت بیت المقدس بنی اسرائیل کی تولیت میں تھا۔ اسلام کا عرب کی بستی بستی تک چرچا ہوچکا تھا۔ مدینہ کے اوس و خزرج کے بعض افراد اسلام لا چکے تھے۔ یہود اسلام کی دعوت پر پوری طرح آگاہ تھے۔ بیت المقدس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت سے صاف اشارہ ملتا تھا کہ عنقریب بیت المقدس پر امت مسلمہ کا قبضہ ہوجانے والا ہے اور اس سورۃ بنی اسرائیل کا آغاز جو واقعہ اسراء سے ہوا ہے تو محض تمہید کے طور ہوا ہے ورنہ اصل روئے سخن یہود ہی کی طرف ہے اور انھیں ان کی سابقہ تاریخ سے خبردار کرنے کے بعد متنبہ کیا جارہا ہے کہ ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئیں اور سرکشی کی روش چھوڑ دیں۔