وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ
اور (مسلمانو) گر تم سزا دو (٧٨) تو اتنا ہی دو جتنی سزا تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو گے تو (جان لو کہ) ایسا کرنا صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھی بات ہے۔
[١٢٩] بدلہ لینے میں انصاف ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے :۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ احد کے دن انصار کے چونسٹھ اور مہاجرین کے چھ آدمی شہید ہوگئے ان میں سیدنا حمزہ بھی تھے جن کا کفار نے مثلہ کیا۔ چنانچہ انصار نے کہا۔ اگر ہمیں ان پر کبھی فتح ہوئی تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں گے پھر جب مکہ فتح ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ﴿وَاِنْ عَاقَبْتُمْ ۔۔۔۔ لِّلصّٰبِرِیْنَ ﴾ کسی شخص نے کہا۔ ’’آج کے بعد قریش نہ رہیں گے‘‘ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’چار شخصوں کے علاوہ باقی سب قریش سے ہاتھ روک لو“(ترمذی۔ کتاب التفسیر) واضح رہے کہ یہ سورت اگرچہ مکی ہے تاہم یہ چند آیات مدینہ میں اس وقت نازل ہوئیں جب احد کے میدان میں مسلمانوں کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا۔ اور انصار نے بدلہ لینے کا عہد کیا تھا۔ جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے اور ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دعوت وتبلیغ کی راہ میں اگر تمہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں۔ پھر تمہیں ان پر کسی وقت قدرت حاصل ہو تو تمہیں ان سے بدلہ لینے کی اجازت ہے مگر اس بدلہ میں زیادتی ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ اور اگر تم برداشت کرکے درگزر کر دو تو یہ بات بدلہ لینے سے بہت زیادہ بہتر ہے اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں درگزر کا نتیجہ تمہارے حق میں بہت بہتر ثابت ہوگا۔ بہرحال اس آیت میں حکم عام ہے جس کا اطلاق ہر ایسے موقع پر ہوسکتا ہے۔