مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
جو کوئی مرد یا عوعرت نیک کام (٦٢) کرے گا، درآنحلیکہ وہ مومن ہوگا تو اسے ہم پاکیزہ اور عمدہ زندگی عطا کریں گے، اور ان کے اعمال سے زیادہ اچھا بدلہ انہیں دیں گے۔
[١٠١] پاکیزہ زندگی کیسے حاصل ہوتی ہے؟:۔ اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ اگرچہ تقسیم کار کی بنا پر مرد کو اس دنیا میں عورت پر فوقیت حاصل ہے مگر اخروی اجر کے لحاظ سے دونوں کا مرتبہ یکساں ہے۔ وہاں معیار صرف ایمان اور نیک اعمال ہوں گے۔ اگر اس معیار کے مطابق عورت مرد سے فائق ہوگی تو اسے یقیناً مردوں سے بہتر درجہ بھی مل سکتا ہے۔ دوسری یہ کہ ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے سے مومن کی دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت بھی۔ اور یہ جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایک ایماندار، دیانتدار اور را ستباز انسان کو آخرت میں تو ضرور اجر ملے گا مگر وہ دنیا میں نقصان میں ہی رہتا ہے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ بلکہ جو لوگ راستباز اپنے عہد پر قائم رہنے والے اپنی بات کے پکے اور صاف نیت ہوتے ہیں۔ انھیں بد عمل، عہد شکن، مفاد پرست لوگوں کے مقابلہ میں جو ساکھ سچی عزت اور قلبی سکون میسر ہوتا ہے وہ ان لوگوں کو کبھی میسر نہیں آسکتا جو نیت کے کھوٹے، فریب کار اور عہد شکن ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں دنیوی لحاظ سے بھی راست باز لوگ با لآخر فائدہ میں رہتے ہیں اور یہی حیوۃ طبیۃ کا واضح مفہوم ہے۔ اور تیسری یہ بات کہ ایسے ایماندار اور نیکو کار لوگوں کو آخرت میں جو مرتبہ ملے گا وہ ان کے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہوگا۔ مثلاً ایک شخص نے اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی اور بڑی بڑی ہر طرح کی نیکیاں کی ہیں تو اسے وہ اونچا مقام عطا کیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہوگا۔