وَاللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ (٤٩) سے جب نکالا تو تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اور اس نے تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنایا تاکہ تم شکر ادا کرو۔
[٧٩] اللہ کی نعمتیں اور انسان کی ناشکری :۔ یہاں سے پھر گذشتہ مضمون یعنی دلائل توحید کا تسلسل قائم ہو رہا ہے۔ پیدائش کے وقت انسان کا بچہ جس قدر بے خبر اور کمزور ہوتا ہے اتنا اور کسی جاندار کا بچہ بے خبر اور کمزور نہیں ہوتا۔ دوسرے سب جانداروں کے بچے پیدا ہوتے ہی راہ دیکھنے اور چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آنکھ، کان اور دل سب جانداروں کو عطا کیے ہیں۔ لیکن انسان کو اللہ نے جو کان، آنکھیں اور دل دیئے ہیں وہ اتنی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعہ انسان باقی تمام جانداروں اور دوسری مخلوق کو اپنا تابع بنا رہا ہے اور ان پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اب اس کا حق تو یہی ہے کہ جس ہستی نے اسے ایسے قابل کان، آنکھیں اور دل عطا کیے ہیں اس کا شکر بجا لائے۔ کانوں سے اللہ کا کلام سنے، آنکھوں سے کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں اور قدرتوں کو دیکھے۔ پھر دل سے غور و فکر کرے اور صانع حقیقی کی معرفت اور توحید تک پہنچے مگر افسوس ہے کہ اکثر انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی اور استعداد رکھنے کے باوجود کانوں، آنکھوں اور دلوں سے وہ کام نہیں لیا جس غرض کے لیے اللہ نے یہ نعمتیں انسان کو عطا کی تھیں۔ اپنی دنیوی اغراض کی خاطر ان سے اتنا ہی کام لیا جتنا دوسرے حیوانات لیتے ہیں۔