وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر روزی میں برتری (٤٤) دی ہے، پس جنہیں فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی روزی اپنے غلاموں کو نہیں دے دیتے تاکہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔
[٧٠] شرک اللہ سے بے انصافی اور ناشکری ہے :۔ یہ خطاب مشرکوں سے ہے اور شرک کی تردید میں ایک عام فہم دلیل پیش کی گئی ہے یعنی تم میں سے ایک شخص صاحب مال و جائداد ہے اور اس کے کئی غلام بھی ہیں تو کیا وہ یہ گوارا کرے گا کہ اپنی ساری دولت اور جائداد اپنے غلاموں میں اس طرح تقسیم کردے کہ اس کا اپنا حصہ بھی ہر غلام کے برابر ہوجائے؟ ظاہر ہے کہ کوئی مالک ایسا کام گوارا نہیں کرسکتا پھر اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ جب تم لوگ اپنے لیے ایسی برابری برداشت کرنے کو تیار نہیں تو کیا اللہ ایسی برابری برداشت کرسکتا ہے؟ جو ہر چیز کا مالک و مختار ہے اس نے تم کو یہ سب نعمتیں عطا فرمائیں۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ تم اسی کا شکریہ ادا کرتے اور اسی کی بندگی کرتے لیکن اس معاملہ میں تم لوگوں نے جو اللہ کے مملوک اور غلاموں کو اللہ کے ساتھ برابر کا شریک بنادیا ہے تو کیا اس سے بڑھ کر بھی اللہ کے ساتھ بے انصافی، اس کی احسان ناشناسی اور اس کی نعمتوں کا انکار ہوسکتا ہے؟ مخلوق اور مملوک کبھی شریک نہیں بن سکتے :۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر کوئی مالک اپنے غلام کو کسی چیز کا مالک یا اس میں تصرف کا اختیار دے بھی دے۔ تو یہ سب کچھ عارضی طور پر ہوگا۔ حقیقتاً ان چیزوں کا مالک بھی اصل مالک ہی ہوگا۔ اسی لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ حقیقتاً ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور ہمارا کسی چیز کا مالک ہونا یا اس میں تصرف کا اختیار ہونا محض چند روزہ یا عارضی ہے اس سے ایک اہم نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مملوک ہونا اور شراکت دو چیزیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ یعنی جو غلام ہے وہ شریک نہیں بن سکتا۔ غلام کو مالک بنانے کی صرف یہ صورت ممکن ہے کہ اسے پہلے آزاد کردیا جائے۔ اب وہ مالک تو بن جائے گا لیکن غلام نہ رہا۔ لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ چونکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق ومملوک ہے لہٰذا وہ صفات الوہیت میں اس کی شریک نہیں بن سکتی۔ اشتراکیت کا رد :۔ بعض اشتراکیت پسند حضرات نے اس آیت کا غلط مطلب لے کر بڑا اوٹ پٹانگ سانتیجہ اخذ کیا ہے ان حضرات کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’جو لوگ تم میں سے امیر ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنا مال و دولت اپنے غلاموں میں بانٹ کر سب برابر ہوجائیں اور اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پاؤ گے‘‘ اور اس طرح اشتراکیت یا کمیونزم کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اب ظاہر ہے کہ سیاق و سباق قطع نظر کرتے ہوئے درمیان میں سے ایک آیت لے کر اس سے اپنے نظریہ کے مطابق مطلب کشید کرنا بدترین قسم کی تحریف معنوی ہے۔ اس آیت سے پہلے بھی توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کا بیان چل رہا ہے۔ اس آیت میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے اور بعد کی آیات میں بھی یہی مضمون آرہا ہے۔ لہٰذا درمیان میں اس آیت کو اس کے اصل مفہوم سے جدا کرکے دور حاضر کے ایک باطل فلسفہ معیشت پر چسپاں کرنا انتہائی غیر معقول بات ہے۔ پھر یہ معنی اس لحاظ سے بھی غلط ہیں کہ اس آیت میں غلاموں کا ذکر ہے غریب طبقہ کا ذکر نہیں۔ جسے اشتراکیت پسند اپنی مطلب برآری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔