بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
ہم نے انہیں معجزات اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور آپ پر ہم نے قرآن نازل کیا ہے، تاکہ لوگوں کے لیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے، اسے آپ ان کے لیے کھول کر بیان کردیجیے، اور تاکہ لوگ غوروفکر کریں۔
[٤٤۔ الف] اہل الذکر کون ہیں :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کا لفظ نہیں بلکہ ذکر کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور اس سے پہلی آیت میں بھی اہل کتاب کا لفظ استعمال نہیں فرمایا بلکہ اہل الذکر کا استعمال فرمایا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ذکر اور کتاب یا قرآن دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس فرق کی وضاحت کے لیے سورۃ الحجر کا حاشیہ نمبر ٥ ملاحظہ فرمائیے۔ مختصراً یہ کہ ذکر میں اللہ کی کتاب کے علاوہ وہ بصیرت بھی شامل ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کو کتاب کے بیان کے سلسلہ میں عطا کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اہل الذکر سے مراد دینی علوم کے ماہر ہیں اور ذکر سے مراد تمام منزل من اللہ وحی ہے یعنی کتاب اللہ کے علاوہ سنت رسول بھی ذکر کے مفہوم میں شامل ہے اور لوگوں کو ہدایت یہ دی جارہی ہے کہ اگر کوئی شرعی مسئلہ معلوم نہ ہو تو اسے دینی علوم کے کسی ماہر سے پوچھ لینا چاہیے۔ چنانچہ اصول فقہ میں علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کسی مسئلہ کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے وہاں سے نہ ملے تو سنت رسول کی طرف رجوع کیا جائے وہاں بھی نہ ملے تو اجماع صحابہ سے معلوم کیا جائے۔ اور اگر مسئلہ ہی مابعد کے دور کا ہو تو پھر اس میں اجتہاد و استنباط کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اجتہاد بھی سارے لوگ تو نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے لیے علوم شرعیہ میں مہارت کے علاوہ خاصے غور و فکر کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ اور جو لوگ اجتہاد کرنے کے اہل ہوتے ہیں انھیں مجتہد کہتے ہیں اور یہی لوگ اہل الذکر کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں اور عام لوگوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ان سے شرعی مسائل پوچھ لیا کریں۔ تقلید شخصی کیوں حرام ہے :۔ مقلد حضرات تقلید کو شرعی حجت ثابت کرنے کے لیے اسی آیت سے استدلال فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تقلید ایک شرعی ضرورت ہے۔ اگر معاملہ یہیں تک رہتا تو پھر نہ اس میں اختلاف کی گنجائش تھی اور نہ تنازعہ کی۔ تنازعہ تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی شخص کو کسی ایک خاص امام مجتہد کا مقلد بنے رہنے کا پابند کیا جاتا ہے پھر ان میں گروہی تعصب پیدا ہوتا ہے تو ہر صاحب علم اپنے امام کی برتری بیان کرنے اور دوسرے مجتہدین کی تنقیص کرنے لگتا ہے۔ پھر جب مزید تعصب پیدا ہوجاتا ہے تو اپنے امام کے قول کو حدیث کے مقابلہ میں ترجیح دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور حدیث کی صرف اس لیے تاویل یا تضعیف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے امام کے قول کی صحت پر آنچ نہ آنے پائے۔ ایسی اندھی تقلید کا نام ہی تقلید شخصی ہے جسے کسی صورت مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی شخص کو ایک خاص امام کی تقلید کا پابند کرنا کوئی مستحسن فعل ہے۔ تقلید شخصی کے حق میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح لوگ ہر امام کی رعایتوں سے اور رخصتوں سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ ان حضرات سے گزارش ہے کہ اگر کوئی مجتہد یا اہل علم شریعت سے ہی ایک رخصت استنباط کرتا ہے تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ شریعت کی رخصتوں پر پابندیاں لگا کر دین کی راہوں کو مشکل بنا دیں اور اللہ کی وسیع رحمت کے آگے بند باندھیں اور یہ تقلید شخصی حرام اس لحاظ سے ہے کہ یہ تعصب اور تشدد کی بنا پر فرقہ بندی کی بنیاد بنتی ہے جو شرعاً حرام ہے۔ [ ٤٥] قرآن کا بیان کیا چیز ہے ؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ذمہ داری صرف یہی نہیں تھی کہ جو کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی طرف سے نازل ہو، اسے پڑھ کر لوگوں کو سنا دیا کریں یا لکھوا دیا کریں یا آپ اسے خود بھی یاد کرلیں اور دوسروں کو بھی یاد کروادیا کریں۔ بلکہ اس کے علاوہ آپ کی تین مزید اہم ذمہ داریاں بھی تھیں۔ جن میں سے یہاں ایک کا ذکر کیا جارہا ہے جو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے اس کا مطلب اور تشریح و توضیح بھی لوگوں کو بتا دیا کریں۔ اگر کسی کو کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو سمجھا دیا کریں۔ اگر وہ کوئی سوال کریں تو انھیں اس کا جواب دیا کریں۔ رہی یہ بات کہ قرآن کی وضاحت یا قرآن کا بیان کیا چیز ہے اس کے لیے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ٤ کا حاشیہ ملاحظہ فرمایئے۔ منکرین حدیث اور اہل قرآن کا رد :۔ ضمناً اس آیت سے تین باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک تو اس آیت میں ان منکرین حدیث یا اہل قرآن کا پورا رد موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی حیثیت (معاذ اللہ) صرف ایک چٹھی رساں کی تھی۔ آپ پر قرآن نازل ہوا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوں کا توں امت کے حوالہ کردیا۔ آپ کی ذمہ داری بس اتنی ہی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری کردی۔ اور قرآن میں امت کے لیے پوری رہنمائی موجود ہے اور ان کا رد اس لحاظ سے ہے کہ قرآن خود بتا رہا ہے کہ اس کے بیان یا وضاحت کی ضرورت بھی باقی رہتی ہے اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے کیونکہ قرآن کے بیان کے بغیر اس کی اتباع ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ کا بیان یا وضاحت یا ارشادات یا اصطلاحی زبان میں آپ کی سنت یا حدیث بھی اتباع کے لحاظ سے بعینہ اسی طرح واجب ہے جس طرح قرآن کی اتباع واجب ہے اور تیسرے یہ کہ جو شخص قرآن کے بیان کا منکر ہے وہ یقیناً قرآن ہی کا منکر ہے۔