وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
اور ہم نے ہر گروہ کے پاس ایک رسول اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ لوگو ! اللہ کی عبادت کرو اور شیطان اور بتوں کی عبادت سے بچتے رہو، پس ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض کے لیے گمراہی واجب ہوگئی، پس تم لوگ زمین میں گھوم پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا برا انجام ہوا۔
[٣٦] طاغوت کے معنی :۔ طاغوت کا اطلاق ہر اس شخص، ادارے، بادشاہ یا حکومت پر ہوسکتا ہے جو اللہ کا نافرمان ہو اور لوگ اس کی اطاعت پر مجبور ہوں۔ ایسا شخص یا ادارہ یا بادشاہ اللہ کا باغی ہوتا ہے اور اپنے زیر اثر لوگوں کو اپنی بات منوانا چاہتا ہے اور یہی کام شیطان کا ہوتا ہے لہٰذا اس لفظ کا ترجمہ عموماً شیطان سے کردیا جاتا ہے اور اگر انسان اللہ کے احکام کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ہی نفس کی اتباع کرنے لگے تو اس کے نفس پر بھی طاغوت کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ [٣٧] تذکیر بایام اللہ :۔ جب بھی کوئی رسول اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا اور اس نے اللہ کی عبادت اور اپنی فرمانبرداری کی دعوت دی تو اس کی قوم دو حصوں میں بٹ جاتی رہی۔ ایک ماننے والے اور دوسرے اس دعوت سے انکار کرنے والے۔ اب تم محض تاریخ یا لوگوں سے سنی سنائی باتوں پر اعتبار مت کرو۔ بلکہ خود چل پھر کر خود حالات کا جائزہ لو اور دیکھو کہ کیا عذاب الٰہی انہی لوگوں پر نہیں آیا تھا جنہوں نے انبیاء کی دعوت کو جھٹلا دیا تھا۔ قوم عاد، ثمود، نوح، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم فرعون یہ سب قومیں ایسی ہیں جو تمہارے آس پاس ہی رہا کرتی تھیں۔ اور تمہارے لیے وہاں جاکر ان کا انجام دیکھنا آسان بھی ہے۔ پھر ایسا ایک دو بار نہیں ہوا۔ بلکہ جتنی قوموں کے حالات سے تم مطلع ہوسکتے ہو ان سب سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کیا پھر بھی تم ان مسلسل تاریخی شہادتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے؟ اور یہ سوچ نہیں سکتے کہ اگر ہم بھی اپنے رسول کی تکذیب کریں گے تو ہمارا بھی یہی انجام ہوسکتا ہے؟