يُنبِتُ لَكُم بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور اس کے ذریعہ وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور کے درخت اور متعدد قسم کے انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو غور وفکر کرتے ہیں۔
[١١] سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کا ذکر کیا جن سے انسان لحمی غذائیں، روغن اور دوسرے فوائد حاصل کرتا ہے۔ ان دو آیات میں ایسی چیزوں کا ذکر کیا ہے جو ہمارے جسم کے لئے نباتاتی غذاؤں کا کام دیتی ہیں۔ اور ان آیات میں جس بات کی طرف غور و فکر کرنے کی توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے اسی پانی سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے ہی لیے زمین بھی سیراب ہوتی اور تمہارے لیے پانی کا ذخیرہ بھی محفوظ رکھتی ہے۔ پھر یہی ایک ہی قسم کا پانی، ایک ہی زمین، ایک ہی ہوا اور ایک ہی سورج ہے لیکن زمین سے ایک نہیں بلکہ لاکھوں قسموں کی نباتات اگ آتی ہیں۔ جھاڑیاں، جڑی بوٹیاں، غلے اور بے پھل اور پھل دار درخت پھر ان پودوں، غلوں اور پھلدار درختوں کی بھی بے شمار اقسام ہیں۔ جن میں سے کچھ تمہارے مویشیوں کی خوراک بنتی ہیں اور کچھ تمہاری خوراک کا کام دیتی ہیں۔ کیا یہ سمندروں سے بخارات کا اٹھنا، پھر بادلوں کی صورت میں رواں ہونا، پھر بارش کی شکل میں ان کا برسنا پھر اسی پانی کا زمین کو سیراب کرنا۔ زمین کا سب جانداروں کے لیے خوراک مہیا کرنا۔ پھر فالتو پانی کا ندی نالوں کی صورت میں بہہ کر دوسرے علاقوں کی زمین کو سیراب کرنا اور زائد پانی کا پھر سمندر میں جاگرنا۔ اور پھر سمندر سے بخارات بننا۔ اس پورے چکر میں تمہارے لیے بھی اور تمہارے مویشیوں کے لیے خوراک کا انتظام تو ہوگیا لیکن کیا یہ نظام از خود ہی چل رہا ہے؟ یا اسے کوئی حکیم و خبیر ہستی چلا رہی ہے؟ یا کیا اس پورے نظام میں اللہ کے سوا کسی دوسرے شریک کی کوئی مداخلت کہیں نظر آتی ہے؟ اگرچہ اس پورے نظام کے لیے اللہ نے طبعی قوانین بنا دیئے ہیں پھر بھی اس سارے نظام کی باگ ڈور اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک ہی مقام پر ایک مقررہ موسم میں کسی سال بارش بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور کبھی بہت کم۔ اگر یہ محض طبعی قوانین کا کھیل ہوتا تو ایسا ہونا ناممکن تھا۔