أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اللہ کا حکم آچکا ہے، پس اے کافرو ! تم لوگ جلدی (١) نہ مچاؤ، وہ مشرکوں کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔
[١] قریش پر اللہ کے عذاب کی صورت اور اس کا آغاز ہجرت نبوی سے :۔ مشرکین مکہ اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چڑانے کے لیے کہا کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو جیسے تم کہتے ہو، ہم پر اب تک عذاب آ کیوں نہیں گیا وہ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ و سلم کو عذاب کا وعدہ دیتے دس بارہ سال گزر چکے ہیں اور عذاب تو آیا نہیں لہٰذا یہ الفاظ گویا ان کا تکیہ کلام بن گئے تھے۔ اور اس بات سے وہ دو باتوں پر استدلال کرتے تھے۔ ایک اپنے مشرکانہ مذہب کی سچائی پر اور دوسرے پیغمبر اسلام کی نبوت کی تکذیب پر۔ انھیں باتوں کے جواب سے اس سورت کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی بات کا جواب یہ دیا گیا کہ عذاب کا آنا یقینی ہے اس کے لیے جلدی مچانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جلد ہی تمہیں اس سے سابقہ پڑنے والا ہے یوں ہی سمجھو کہ وہ سر پر آپہنچا۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ عذاب کون سا تھا اور کب آیا ؟ تو اس کے متعلق یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نبی کی ذات جب تک کسی قوم میں موجود ہو اس وقت تک عذاب نہیں آتا۔ آگے پھر دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ نبی کو اور اس کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے کر وہاں سے نکال لیا جاتا ہے یا کسی بھی دوسرے ذریعہ سے انھیں بچا لیا جاتا ہے اور باقی مجرموں پر قہر الٰہی نازل ہوتا ہے اور عذاب کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ انھیں ہجرت کرنے والوں کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ مجرم قوم کی پٹائی کراتا ہے۔ تاآنکہ کفر و شرک کا سر توڑ دیتا ہے۔ عذاب کی ان دونوں صورتوں کا ذکر سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٥٢ میں موجود ہے لہٰذا ہمارے خیال میں اس عذاب کا نقطۂ آغاز ہجرت نبوی ہی تھا۔ جس کا حکم اس سورۃ کے نزول کے تھوڑے ہی عرصہ بعد دے دیا گیا تھا۔ یہی ہجرت مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کے خاتمہ کا سبب بنی اور مسلمانوں کو آزادی سے سانس لینا نصیب ہوا اور یہی ہجرت غزوہ بدر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس میں کفر کی خوب پٹائی ہوئی اور اس ہجرت کے صرف آٹھ دس سال بعد بتدریج کافروں اور مشرکوں کا اس طرح قلع قمع ہوا اور کفر و شرک کا یوں استیصال ہوا کہ سارے عرب سے اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ [ ٢] یہ ان کے دوسرے استدلال کا جواب ہے کہ اگر ہمارا مشرکانہ مذہب سچا نہ ہوتا تو اب تک ہم پر عذاب آچکا ہوتا۔ عذاب آجانے پر اس استدلال کی از خود تردید ہوگئی۔ اور سب کو معلوم ہوگیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آسکے لہٰذا وہ باطل ہیں۔