فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ
پس جب میں اسے بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب اس کی تعظیم کے لیے سجدہ میں گرجاؤ۔
[٩ ١] فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم :۔ جب انسان کا پتلا تیار ہوگیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ’’میں کھنکھناتی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے لگا ہوں۔ جب میں اس کی نوک پلک درست کرکے اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم اسی وقت اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا‘‘ روح پھونکنے سے مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہلکا سا پر تو انسان میں پیدا ہوجائے اور انسان کو جو دوسری تمام جانداروں سے زیادہ عقل و تمیز، قوت ارادہ و اختیار، مختلف اشیاء کے خواص معلوم کرنے کا علم نیز غور و فکر کے ذریعہ استنباط یا تنائج حاصل کرنے کا علم دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اسی نفخہ کا نتیجہ ہے اور اسی بنا پر انسان زمین میں اللہ کا خلیفہ بنایا گیا۔ عقیدہ حلول اور ارتقاء کا رد :۔ ﴿نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ ﴾ کے الفاظ سے بعض لوگوں نے بڑا گمراہ کن مفہوم اخذ کیا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ انسان کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جتنا حصہ اللہ نے اپنی روح کا آدم میں پھونکا تو اتنا اس سے کم ہوگیا۔ (نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) حالانکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے سورج اپنی شعاعیں زمین پر ڈالتا ہے تو وہ روشنی سے جگمگا اٹھتی ہے اس سے نہ سورج کی روشنی میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ سورج زمین میں حلول کر گیا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ نظریہ چونکہ آج کل ہمارے کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور بعض مسلمان بھی اس نظریہ سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ نیز اس نظریہ نے مذہبی دنیا میں ایک اضطراب سا پیدا کردیا ہے لہٰذا یہاں ہم کچھ اس کی تفصیل پیش کر رہے ہیں : واضح رہے کہ انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت اور قرآن کریم کی بعض دوسری آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا پھر اس سے اس کی بیوی پیدا کی۔ پھر اس سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلی۔ آدم کا پتلا جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا۔ اور ایسی روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی۔ یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تمام حیوانات سے بہت زیادہ عقل و شعور، قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں۔ اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے۔ تخلیق انسانی سے متعلق مختلف نظریات :۔ دوسرا گروہ مادہ پرستوں کا ہے جو اسے خالص ارتقائی شکل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق زندگی اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی۔ پھر اس سے نباتات اور اس کی مختلف انواع وجود میں آئیں۔ پھر نباتات ہی سے ترقی کرتے کرتے حیوانات پیدا ہوئے۔ انہی حیوانات سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے۔ اس تدریجی اور ارتقائی سفر کے دوران کوئی ایسا نقطہ متعین نہیں کیا جاسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کا وجود ختم کرکے نوع انسانی کا آغاز تسلیم کیا جائے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے ارسطو (٣٨٤۔ ٣٢٢ ق م) نے پیش کیا تھا۔ قدیم زمانہ میں تھیلیس، عناکسی میندر، عناکسی مینس، ایمپی ووکل اور جوہر پسند فلاسفہ بھی مسئلہ ارتقاء کے قائل تھے۔ مسلمان مفکرین میں سے ابن خلدون، ابن مسکویہ اور حافظ مسعودی نے بھی اشیائے کائنات میں مشابہت دیکھ کر کسی حد تک اس نظریہ ارتقاء کی حمایت کی ہے۔ (انسائیکلو پیڈیا مطبوعہ فیروز سنز، زیر عنوان ارتقائیت) کیا انسان بندر کی اولاد ہے ؟:۔ انیسویں صدی عیسوی سے پہلے یہ نظریہ ایک گمنام سا نظریہ تھا۔ انیسویں صدی میں سر چارلس ڈارون (١٨٠٨ ء۔ ١٨٨٢ء) نے ایک کتاب اصل الانواع (Spices of Origin) لکھ کر اس نظریہ کو باضابطہ طور پر پیش کیا۔ اس نظریہ کو ماننے والوں میں بھی کافی اختلاف ہوئے۔ ڈارون نے بندر اور انسان کو ایک ہی نوع قرار دیا کیونکہ حس و ادراک کے پہلو سے ان دونوں میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔ گویا ڈارون کے نظریہ کے مطابق انسان بندر کا چچیرا بھائی ہے۔ لیکن کچھ انتہا پسندوں نے انسان کو بندر ہی کی اولاد قرار دیا۔ کچھ ان سے بھی آگے بڑھے تو کہا کہ تمام سفید فام انسان تو چیمپیزی (Chimpazy) سے پیدا ہوئے ہیں۔ سیاہ فام انسانوں کا باپ گوریلا ہے اور لمبے سرخ ہاتھوں والے انسان تگنان بندر کی اولاد ہیں۔ مورخین نے تو ان مختلف اللون انسانوں کو سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولاد قرار دیا تھا۔ مگر یہ حضرات انھیں چیمپیزی، گوریلا اور تگنان کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ پھر کچھ مفکرین کا یہ خیال بھی ہے کہ انسان بندر کی اولاد نہیں بلکہ بندر انسان کی اولاد ہے۔ اس رجعت قہقری کی مثالیں بھی اس کائنات میں موجود ہیں۔ قرآن سے بھی اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہوجاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کچھ بدکردار اور نافرمان لوگوں کو فرمایا ﴿ُكُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـــِٕیْنَ ﴾ تخلیق کائنات بشمولیت انسان سے متعلق تیسرا نظریہ آفت گیری (Catastrophism) ہے جس کا بانی کو پیئر (Copier) (١٧٩٦۔ ١٨٣٢ء ) ہے جو فرانس کا باشندہ اور تشریح الاعضاء کا ماہر تھا۔ اس کے نظریہ کے مطابق تمام اقسام کے تابئے علیحدہ علیحدہ طور پر تخلیق ہوئے۔ یہ ارضی و سماوی آفات میں مبتلا ہو کر نیست و نابود ہوگئے۔ پھر کچھ اور حیوانات پیدا ہوئے۔ یہ بھی کچھ عرصہ بعد نیست و نابود ہوگئے۔ اسی طرح مختلف ادوار میں نئے حیوانات پیدا ہوتے اور فنا ہوتے رہے ہیں (اسلام اور نظریہ ارتقاء ص ٨٥ ازاحمد باشمیل۔ ادارہ معارف اسلامی کراچی مطبوعہ البدر پبلی کیشنز لاہور) ڈارون کے نظریہ کے مطابق زندگی کی ابتداء ساحل سمندر پر پایاب پانی سے ہوئی۔ پانی کی سطح پر کائی نمودار ہوئی پھر اس کائی کے نیچے حرکت پیدا ہوئی۔ یہ زندگی کی ابتدا تھی پھر اس سے نباتات کی مختلف قسمیں بنتی گئیں۔ پھر جرثومہ حیات ترقی کرکے حیوانچہ بن گیا۔ پھر یہ حیوان بنا۔ یہ حیوان ترقی کرتے کرتے پردار اور بازوؤں والے حیوانات میں تبدیل ہوا۔ پھر اس نے فقری جانور (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے) کی شکل اختیار کی پھر انسان کے مشابہ حیوان بنا۔ اور اس کے بعد انسان اول بنا جس میں عقل' فہم اور تکلم کی صلاحیتیں نہیں تھیں۔ بالآخر وہ صاحب فہم و ذکاء انسان بن گیا۔ ان تمام تبدلات، تغیرات اور ارتقائے زندگی کے سفر کی مدت کا اندازہ کچھ اس طرح بتلایا جاتا ہے۔ ارتقائی انسان کتنی مدت میں وجود میں آیا ؟:۔ آج سے دو ارب سال پیشتر سمندر کے کنارے پایاب پانی میں کائی نمودار ہوئی۔ یہ زندگی کا آغاز تھا۔ ٦٠ کروڑ سال قبل یک خلوی جانور پیدا ہوئے۔ پھر ٣ کروڑ سال بعد اسفنج اور سہ خلوی جانور پیدا ہوئے۔ ٤٥ کروڑ سال قبل پتوں کے بغیر پودے ظاہر ہوئے اور اسی دور میں ریڑھ کی ہڈی والے جانور پیدا ہوئے۔ ٤٠ کروڑ سال قبل مچھلیوں اور کنکھجوروں کی نمود ہوئی۔ ٣٠ کروڑ سال قبل بڑے بڑے دلدلی جانور پیدا ہوئے۔ یہ عظیم الجثہ جانور ٤ فٹ لمبے اور ٣٥ ٹن تک وزنی تھے۔ ١٣ کروڑ سال بعد یا آج سے ١٧ کروڑ سال پہلے بےدم بوز نہ سیدھا ہو کر چلنے لگا (یعنی وہ بندر ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کا جداعلیٰ ہے) اس سے ٣٠ لاکھ سال بعد یا آج سے ستر لاکھ سال پہلے اس بےدم بوز نے کی ایک قسم تپھکن تھروپس سے پہلی انسانی نسل پیدا ہوئی۔ مزید ٥٠ لاکھ سال بعد یا آج سے ٢٠ لاکھ سال پہلے پہلی باشعور انسانی نسل پیدا ہوئی۔ جس نے پتھر کا ہتھیار اٹھایا۔ مزید ٢ لاکھ سال بعد اس میں ذہنی ارتقاء ہوا اور انسانی نسل نے غاروں میں رہنا شروع کیا۔ (زریں معلومات مطبوعہ فیروز سنز ص ٧ تا ٩) ڈارون نے اپنی پہلی کتاب اصل الانواع ١٨٥٩ ء میں لکھی پھر اصل الانسانOrigin of man)) اور پھر تسلسل انسانی(Decent of man) لکھ کر اپنے نظریہ کی تائید مزید کی۔ اور اپنے اس نظریہ کو مندرجہ ذیل چار اصولوں پر استوار کیا ہے : ١۔ تنازع للبقاءStruggle for Existence)) اس سے مراد زندگی کی بقا کے لیے کشمکش ہے جس میں صرف وہ جاندار باقی رہ جاتے ہیں جو زیادہ مکمل اور طاقتور ہوں اور کمزور جاندار ختم ہوجاتے ہیں مثلاً کسی جنگل میں وحشی بیل ایک ساتھ چرتے ہیں۔ ان میں سے جو طاقتور ہوتا ہے وہ گھاس پر قبضہ جما لیتا ہے اور اس طرح مزید طاقتور ہوجاتا ہے مگر کمزور خوراک کی نایابی کے باعث مزید کمزور ہو کر بالآخر ختم ہوجاتا ہے اسی کشمکش کا نام تنازع للبقاء ہے۔ ٢۔ دوسرا اصول طبعی انتخاب ( Natural Selection) ہے مثلاً اوپر کی مثال میں وہی وحشی بیل دور کی مسافت طے کرنے اور دشوار گزار راستوں سے گزرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو طاقتور اور مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور کمزور خود بخود ختم ہوتے جاتے ہیں گویا فطرت خود طاقتور اور مضبوط کو باقی رکھتی اور کمزور اور ناقص کو ختم کرتی رہتی ہے۔ ٣۔ ماحول سے ہم آہنگی (Adaption) اس کی مثال یوں سمجھئے کہ شیر ایک گوشت خور درندہ جانور ہے فطرت نے اسے شکار کے لیے پنجے اور گوشت کھانے کے لیے نوکیلے دانت عطا کیے ہیں۔ اب اگر اسے مدت دراز تک گوشت نہ ملے تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں۔ یا تو وہ بھوک سے مر جائے گا یا نباتات کھانا شروع کردے گا۔ اس دوسری صورت میں اس کے تیز دانت اور پنجے رفتہ رفتہ خود بخود ختم ہوجائیں گے اور ایسے نئے اعضاء وجود میں آنے لگیں گے جو موجودہ ہیئت کے مطابق ہوں۔ اس کی آنتیں بھی طویل ہو کر سبزی خور جانوروں کے مشابہ ہوجائیں گی۔ اسی طرح اگر شیر کو خوراک ملنے کی واحد صورت یہ ہو کہ اسے کسی درخت پر چڑھ کر حاصل کرنی پڑے تو ایسے اعضاء پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے جو اسے درختوں پر چڑھنے میں مدد دے سکیں۔ ٤۔ قانون وراثت(Law of Heritence) اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول نمبر ٢ یعنی ہیئت اور ماحول کے اختلاف سے جو تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں وہ نسلاً بعد نسل آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں تاآنکہ یہ اختلاف فروعی نہیں بلکہ نوعی بن جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ نسلیں ہیں جیسے گدھا اور گھوڑا ایک ہی نوع ہے مگر گدھا گھوڑے سے اس لیے مختلف ہوگیا کہ اس کی معاشی صورت حال بھی بدل گئی اور حصول معاش کے لیے اس کی جدوجہد میں بھی اضافہ ہوگیا۔ سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا خلاصہ، جو اس وقت بھی صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس نظریہ کو کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہوسکی جس کی بنا پر یہ نظریہ سائنس کا قانون ( Scientific Law) بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض کیے ہیں مثلاً : ١۔ نظریہ ارتقاء پر اعتراضات :۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ زندگی کی ابتدا کیسے ہوگئی؟ معلول تو موجود ہے لیکن علت کی کڑی نہیں ملتی گویا اس نظریہ کی بنیاد ہی غیر سائنسی یا ان سائینٹفک ہے۔ اس سلسلہ میں پرویز صاحب اپنی کتاب ''انسان نے کیا سوچا'' کے صفحہ ٥٥ پر لکھتے ہیں کہ : ’’یہ تو ڈارون نے کہا تھا لیکن خود ہمارے زمانے کا ماہر ارتقاء (Simpson) زندگی کی ابتدا اور سلسلہ علت ومعلول کی اولیں کڑی کے متعلق لکھتا ہے کہ زندگی کی ابتداء کیسے ہوگئی؟ نہایت دیانتداری سے اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں۔۔ یہ معمہ سائنس کے انکشافات کی دسترس سے باہر ہے اور شاید انسان کے حیطہ ادراک سے بھی باہر۔۔ اور میرا خیال ہے کہ ذہن انسانی اس راز کو کبھی پا نہیں سکے گا۔ ہم اگر چاہیں تو اپنے اپنے طریق پر اس علت اولیٰ (اللہ تعالیٰ) کے حضور اپنے سر جھکا سکتے ہیں لیکن اسے اپنے ادراک کے دائرے میں کبھی نہیں لاسکتے‘‘ ٢۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ارتقاء کا کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی آج تک انسان کے مشاہدہ میں نہیں آیا۔ یعنی کوئی چڑیا ارتقاء کرکے مرغا بن گئی ہو یا گدھا ارتقاء کرکے گھوڑا بن گیا ہو یا لوگوں نے کسی چمیپنزی یا گوریلا یا بندر یا بن مانس کو انسان بنتے دیکھا ہو۔ نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ فلاں دور میں ارتقاء ہوا تھا بلکہ جس طرح حیوانات ابتدائے آفرینش سے تخلیق کیے گئے ہیں آج تک اسی طرح چلے آتے ہیں اور جو اوپر ارتقائی مدت اربوں اور کروڑوں سال کے حساب سے بیان کی گئی ہے وہ محض ظن و تخمین پر مبنی ہے جسے سائینٹفک نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ بعض ایسی مثالیں ضرور مل جاتی ہیں جو اس نظریہ ارتقاء کی تردید کردیتی ہیں مثلاً حشرات الارض جیسی کمزور مخلوق کو آج تک فنا ہوجانا چاہیے تھا مگر وہ بدستور موجود اور اپنے موسم پر پیدا ہوجاتی ہے۔ ریشم کے کیڑے کی داستان حیات اس کی پرزور تردید کرتی ہے۔ اسی طرح بعض کمتر درجے کے بحری جانور جو ابتدائے زمانہ میں پائے جاتے تھے آج بھی اسی شکل میں موجود اور اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اسی لیے بہت سے منکرین اس نظریہ ارتقاء کے منکر ہیں اور وہ اس نظریہ کے بجائے تخلیق خصوصی (Special Creation) یعنی ہر نوع زندگی کی تخلیق بالکل الگ طور پر ہونا کے قائل ہیں۔ ٣۔ اس نظریہ پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ارتقائی سلسلہ کی درمیانی کڑیاں غائب ہیں۔ مثلاً جوڑوں والے اور بغیر جوڑوں والے جانوروں کی درمیانی کڑی موجود نہیں۔ فقری اور غیر فقری جانوروں کی درمیانی کڑی بھی مفقود ہے۔ مچھلیوں اور ان حیوانات کے درمیان کی کڑی بھی مفقود ہے جو خشکی اور پانی کے جانور کہلاتے ہیں اسی طرح رینگنے والے جانوروں اور پرندوں اور رینگنے والے ممالیہ جانوروں کی درمیانی کڑیاں بھی مفقود ہیں۔ اس نظریہ کی یہ وہ دشواری ہے جو سو سال سے زیر بحث چلی آرہی ہے۔ بعض نظریہ قائلین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ درمیانی کڑی کا کام جب پورا ہو چکتا ہے تو وہ از خود غائب ہوجاتی ہے اس جواب میں جتنا وزن یا معقولیت ہے اس کا آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ ٤۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اس نظریہ کی رو سے پہلا انسان کمزور جسم اور ناقص العقل ثابت کیا جاتا ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر یہی صورت تھی تو اس نے شیروں اور چیتوں کے درمیان گزارہ کیسے کرلیا ؟ اور اس کمزوری اور بے عقلی کے باوجود وہ تنازع للبقاء میں کامیاب کیسے ہوگیا؟ ٥۔ پانچواں اعتراض بڑا وزنی ہے جو یہ ہے کہ ابتدائے زندگی سے بندر تک جو شعوری ترقی دو ارب سال میں واقع ہوئی ہے اور بندر اور انسان کے درمیان جو شعوری فرق ہے اس کے لیے تو اس حساب سے ارب ہا سال کی مدت درکار ہے جبکہ زمین کی عمر صرف ٣ ارب سال بتلائی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قدر عظیم الشان ذہنی ترقی انسان میں یکدم کیونکر آگئی؟ ٦۔ چھٹا اعتراض یہ کہ ڈارون نے ارتقاء کے جو اصول بتلائے ہیں وہ مشاہدات کی رو سے صحیح ثابت نہیں ہوتے مثلاً: الف۔ قانون وراثت کے متعلق ڈارون کہتا ہے کہ لوگ کچھ عرصہ تک کتوں کی دم کاٹتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کتے بےدم پیدا ہونے لگے۔ جس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ عرب اور عبرانی لوگ عرصہ دراز سے ختنہ کرواتے چلے آئے ہیں لیکن آج تک کوئی مختون بچہ پیدا نہیں ہوا۔ ب۔ ماحول سے ہم آہنگی پر اعتراض یہ ہے کہ انسان کے پستانوں کا بدنما داغ آج تک کیوں باقی ہے جس کی کسی دور میں بھی کبھی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی۔ نیز انسان سے کمتر درجہ کے جانوروں (نروں) میں یہ داغ موجود نہیں تو انسان میں کیسے آگیا ؟ علاوہ ازیں یہ کہ ایک ہی جغرافیائی ماحول میں رہنے والے جانوروں کے درمیان فرق کیوں ہوتا ہے؟ ٧۔ رکاز (Paleontology) کی دریافت بھی نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دیتی ہے۔ رکاز سے مراد انسانی کھوپڑیاں یا جانوروں کے وہ پنجر اور ہڈیاں ہیں جو زمین میں مدفون پائی جاتی ہیں۔ نظریہ ارتقاء کی رو سے کمتر درجہ کے جانوروں کی ہڈیاں زمین کے زیریں حصہ میں اور اعلیٰ انسان کے رکاز زمین کے بالائی حصہ میں پائے جانے چاہئیں۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے اور رکاز کی دریافت اس نظریہ کی پرزور تردید کرتی ہے۔ یہ ہیں وہ اعتراضات جنہوں نے اس نظریہ کے انجر پنجر تک ہلا دیئے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی نے اس نظریہ میں استحکام کے بجائے اس کی جڑیں تک ہلا دیں ہیں۔ اب اس نظریہ کے متعلق چند مغربی مفکرین کے اقوال بھی ملاحظہ فرما لیجئے : نظریہ ارتقاء پر مغربی مفکرین کے تبصرے ١۔ ایک اطالوی سائنسدان روزا کہتا ہے کہ گذشتہ ساٹھ سال کے تجربات نظریہ ڈارون کو باطل قرار دے چکے ہیں۔ (اسلام اور نظریہ ارتقاء) ٢۔ ڈی وریز (De-Varies) ارتقاء کو باطل قرار دیتا ہے وہ اس کے بجائے انتقال نوع (Mutation) کا قائل ہے جسے آج کل فجائی ارتقاء (Emergency Evelution) کا نام دیا جاتا ہے اور یہ نظریہ علت و معلول کی کڑیاں ملانے سے آزاد ہے۔ (ایضاً، ص ٥٩) ٣۔ ولاس (Wallace) عام ارتقاء کا تو قائل ہے لیکن وہ انسان سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ (ایضاً ص ٦١) ٤۔ فرخو کہتا ہے کہ انسان اور بندر میں بہت فرق ہے اور یہ کہنا بالکل لغو ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے۔ (ایضاً) ٥۔ میفرٹ کہتا ہے کہ ڈارون کے مذہب کی تائید ناممکن ہے اور اس کی رائے بچوں کی باتوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ ٦۔ آغا سیز کہتا ہے کہ ڈارون کا مذہب سائنسی لحاظ سے بالکل غلط اور بے اصل ہے اور اس قسم کی باتوں کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ (ایضاً ص ٦٢) ٧۔ ہکسلے (Huxley) کہتا ہے کہ جو دلائل ارتقاء کے لیے دیئے جاتے ہیں ان سے یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی کہ نباتات یا حیوانات کی کوئی نوع کبھی طبعی انتخاب سے پیدا ہوئی ہو۔ (ایضاً ص ٦٣) ٨۔ ٹنڈل کہتا ہے کہ نظریہ ڈارون قطعاً ناقابل التفات ہے کیونکہ جن مقدمات پر اس نظریہ کی بنیاد ہے وہ ناقابل تسلیم ہی نہیں ہیں۔ (ایضاً ص ٦٣) نظریہ ارتقاء کی مقبولیت کے اسباب :۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظریہ ارتقاء اتنا ہی غیر سائینٹیفک ہے تو یہ مقبول کیسے ہوگیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا پرچار کرنے والوں میں مادہ پرست، دہریت پسند اور اشتراکیت نواز سب شامل ہوجاتے ہیں۔ دہریت مادہ پرستی، لا ادریت، اور اشتراکیت بذات خود الگ الگ مذہب ہیں۔ یہ نظریہ چونکہ الحاد اور اللہ کی ہستی سے انکار کی طرف لے جاتا ہے لہٰذا ان سب کو ایک دلیل کا کام دیتا ہے۔ ڈارون اصل الانواع لکھنے سے پہلے خدا پرست تھا۔ یہ کتاب لکھنے کے بعد لا ادریت کے مقام پر آگیا۔ پھر جب اور بھی دو کتابیں لکھ کر اپنے نظریہ میں پختہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر بن گیا اور اہل کلیسا نے اس پر کفر و الحاد کا فتویٰ لگا دیا۔ نظریہ ارتقاء کی برصغیر میں درآمد اور منکرین قرآن :۔ ہمارے ہاں مغربی افکار سے مرعوب قرآنی مفکرین نے اسے فوراً اپنا لیا۔ سرسید احمد خاں نے جنہوں نے یورپ میں ایک عرصہ گزارا اور ڈارون کے ہم عصر اور سوامی دیانند سے شدید متاثر تھے اس نظریہ کو فطرت کے مطابق پایا تو اسے قبول کرلیا اور آج ادارہ طلوع اسلام سرسید کی تقلید میں اس نظریہ کے پرچار میں سرگرم ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس نظریہ کو بہت سے مغربی مفکرین مادی اور سائنسی لحاظ سے بھی مردود قرار دے چکے ہیں اسے ہمارے قرآنی مفکرین کو حدیث سے ظنی علم کو رد کرکے اس ''یقینی علم'' کو سینے سے لگانے کی کیا ضرورت تھی سائنسی نظریات کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ اپنے تجرباتی اور تحقیقی مراحل سے گزرنے کے بعد سائنسی (Law) قانون بن جاتے ہیں تب بھی انھیں آخری حقیقت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بعد میں آنے والے مفکر ایسے قوانین کو رد کردیتے ہیں۔ نیوٹن کے دریافت کردہ قانون کشش ثقل کو آئن سٹائن نے مشکوک قرار دیا یہی صورت حال اس کے قوانین حرکت کی ہے تو ایسی صورت میں ان نظریات کو تحریف و تاویل کے ذریعہ ثابت کرنا کوئی دینی خدمت یا قرآنی فکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ پرویز صاحب نے اس نظریہ ارتقاء کو دو شرائط کے ساتھ اپنایا ہے ایک یہ کہ پہلے جرثومہ حیات میں زندگی کسی طرح خود بخود ہی پیدا نہیں ہوگئی تھی بلکہ یہ زندگی خدا نے عطا کی تھی اور دوسری یہ کہ انسان کا فکر و شعور ارتقاء کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ نفخ خداوندی کا نتیجہ ہے اور یہ نفخ روح خداوندی فجائی ارتقاء کے طور پر واقع ہوا۔ فجائی ارتقاء کے نظریہ کا موجد موجودہ دور کا امام لائڈ مارگن ہے جس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ فجائی ارتقاء ممکن العمل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ ہی کو خالق زندگی اور نفخ روح خداوندی کو بطور فجائی ارتقاء عامل تسلیم کرنا ہے تو پھر کیوں نہ آدم علیہ السلام کی خصوصی تخلیق ہی کو تسلیم کرلیا جائے؟ تاکہ نظریہ ارتقاء پر پیدا ہونے والے کئی اعتراضات کا ازالہ بھی ہوجائے۔ مثلاً یہ کہ جب نوع انسان پہلے سے چلی آرہی تھی تو کیا نفخ روح اس نوع کے سارے افراد میں ہوا تھا یا کسی فرد واحد میں؟ اور اگر کسی فرد واحد میں ہوا تھا تو وہ کون تھا۔ اور یہ واقعہ کس دور میں ہوا تھا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ان حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں۔ نظریہ ارتقاء کے حق میں قرآنی دلائل :۔ اب ہم ان قرآنی دلائل کا جائزہ لیں گے جن سے یہ حضرات اپنے اس نظریہ ارتقاء کو کشید کرتے ہیں پہلی دلیل سورۃ نساء کی پہلی آیت ہے”کہ اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کا زوج بنایا پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیلا دیئے‘‘ (٤: ١) یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم علیہ السلام اور زوج سے مراد ان کی بیوی حوا ہیں اور یہی کچھ کتاب و سنت اور آثار سے معلوم ہوتا ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحد سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں اس جرثومہ کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا کٹ کر دو دو ٹکڑے ہوتا گیا۔ اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی۔ جو بالآخر جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے۔ یہ تصور اس لحاظ سے غلط ہے کہ آج بھی جراثیم کی افزائش اسی طرح ہوتی ہے یعنی ایک جرثومہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوتا چلا جاتا ہے پھر کسی جرثومہ کو آج تک کسی نے نباتات میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے؟ لہٰذا لامحالہ ہمیں یہی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم، زوج سے مراد ان کی بیوی ہے اور توالد و تناسل کے ذریعہ ان کی اولاد مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیل گئے۔ ٢۔ دوسری دلیل سورۃ علق کی ابتدائی دو آیات ہیں (’’اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے پروردگار کے نام سے پڑھئے جس نے (کائنات کو) پیدا کیا اور انسان کو علق (جما ہوا خون) سے پیدا کیا‘‘ (٩٦: ١، ٢) دوسری دلیل علق کا مفہوم :۔ علق کا لغوی مفہوم نرو مادہ کے ملاپ کے بعد نطفہ کا جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلینا ہے۔ کہتے ہیں عَلَّقَتِ الاُنْثٰی بالْوَلَدِ مادہ حاملہ ہوگئی (المنجد) اور چونکہ یہ جما ہوا خون جونک جیسی لمبوتری شکل اختیار کرلیتا ہے لہٰذا جونک کو بھی علق کہہ دیتے ہیں۔ ہمارے یہ کرم فرما اس سے دوسرا معنی یعنی جونک مراد لیتے ہیں اور رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ ارتقائی زندگی کے سفر کا وہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے اور کہتے ہیں کہ انسان انہی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے۔ رہی یہ بات کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائے زندگی کے سفر کی داستان ہے تو اس اشکال کو قرآن ہی کی سورۃ مومنون کی یہ آیت دور کردیتی ہے : ’’پھر ہم نے نطفہ کو علق بنایا پھر علق کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر انسان کو نئی صورت میں بنا دیا۔ اللہ بڑی بابرکت ہستی ہے جو سب سے بہتر خالق ہے‘‘ (٢٣ : ١٤) اب سوال یہ ہے کہ اگر علق سے مراد رحم مادر کا قصہ نہیں بلکہ وہ دور مراد ہے جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے تو یہ بھی بتلانا پڑے گا کہ نطفہ سے ارتقائی سفر کا کون سا دور مراد ہے کیونکہ اللہ نے علق کو نطفہ سے بنایا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا قرآن کے اولین مخاطب یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ علق سے وہ مفہوم سمجھ سکتے ہیں جو یہ حضرات آج کل ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں؟ ٣۔ تیسری دلیل۔ اطوار مختلفہ :۔ ان حضرات کی تیسری دلیل سورۃ نوح کی آیت ﴿ وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا ﴾ تمام مفسرین نے اطوار سے مراد وہ تخلیقی مراحل لیے ہیں جو رحم مادر میں واقع ہوتے ہیں جبکہ پرویز صاحب اس آیت سے ارتقائے زندگی کے مراحل مراد لیتے ہیں۔ اس پر بھی وہی سوال پیدا ہوتے ہیں جو دوسری دلیل میں بیان کئے جا چکے ہیں۔ ٤۔ چوتھی دلیل۔ زمین سے روئیدگی :۔ چوتھی دلیل سورۃ نوح کی یہ آیت ہے ﴿ وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا ﴾ اس کا پرویز صاحب یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ’’ہم نے تمہیں زمین سے اُگایا، ایک طرح کا اگانا‘‘ اور مراد یہ لیتے ہیں کہ انسان نباتات اور حیوانات کے راستہ سے ہوتا ہوا وجود میں آیا ہے۔ جہاں تک انسان کا مٹی یا زمین سے پیدا ہونے کا تعلق ہے اس میں تو کسی کو کچھ اختلاف نہیں۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ انبت کا معنی صرف اگانا ہے یا کچھ اور بھی؟ لغوی لحاظ سے یہ لفظ خلق یعنی پیدا کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے کہتے ہیں نبت ثدی الجاریۃ بمعنی لڑکی کے پستان پیدا ہوگئے یا ابھر آئے۔ چنانچہ اکثر مفسرین نے انبت کا معنی پیدا کرنا ہی لکھا ہے پھر اس لفظ کا معنی اچھی طرح پرورش کرنا بھی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّاَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَـنًا ﴾’’تو اللہ نے مریم کو پسندیدگی سے قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا‘‘ لہٰذا یہ آیت بھی ذومعنی ہونے کی بنا پر نظریہ ارتقاء کے لیے دلیل نہیں بن سکتی۔ ٥۔ پانچویں دلیل نسل انسانی کے بعد فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا :۔ پرویز صاحب کی پانچویں دلیل سورۃ اعراف کی یہ آیت ہے : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰئِکَۃِ اسْجُدُوْا لاِدَمَ﴾(۱۱:۷)”اور ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکل وصورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو“ اس سے آپ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم سے پہلے نوع انسانی موجود تھی کیونکہ فرشتوں کو سجدہ کا حکم بعد میں ہوا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ اعراف کی ابتدا میں دور نبوی کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ ’’اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی تابعداری کرو‘‘ پھر آگے چل کر آدم آپ کی بیوی اور ابلیس کا قصہ مذکور ہے تو قرآن میں حسب موقع صیغوں کا استعمال ہوا۔ ان آیات کے مخاطب آدم اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم اور ان کے آباء و اجداد اور بھائی بند۔ جو پرویز صاحب کے خیال کے مطابق اس جنت میں رہتے تھے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ”اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو“(٢: ٢٥) اگر آدم اور آدم کے آباء و اجداد پہلے ہی اس جنت میں رہتے تھے تو صرف آدم اور اس کی بیوی کو جنت میں رہنے کی ہدایت بالکل بے معنی ہوجاتی ہے۔ نظریہ ارتقاء کے ابطال پر قرآنی دلائل :۔ اب ہم قرآن سے ایسے دلائل پیش کریں گے جن سے نظریہ ارتقاء باطل قرار پاتا ہے۔ تخلیق انسانی کے مراحل :۔ پہلی دلیل تخلیق انسانی کے وہ مراحل ہیں جو قرآن سے معلوم ہوتے ہیں اور وہ مٹی پر ہی وارد ہونے والی مختلف صورتیں ہیں اور وہ یہ ہیں : ١۔ اللہ نے انسان کو تراب یعنی خشک مٹی سے پیدا کیا۔ (٤٠: ٦٧) ٢۔ ارض یعنی زمین یا عام مٹی سے پیدا کیا۔ (٧١: ١٧) ٣۔ اسے طین یعنی گیلی مٹی یا گاڑے سے پیدا کیا۔ (٦: ٢) ٤۔ اسے طین لازب یعنی لیسدار اور چپکدار مٹی سے پیدا کیا۔ (٣٧: ١١) ٥۔ اسے حماٍ مسنون بمعنی بدبودار مٹی اور گلے سڑے کیچڑ سے پیدا کیا۔ (١٥: ٢٦) ٦۔ اسے صلصال یعنی حرارت سے پکائی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (١٥: ٢٦) ٧۔ اسے صلصال کالفخار یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری سے پیدا کیا۔ (٥٥: ١٤) یہ ہیں وہ مٹی پر وارد ہونے والے اطوار یا مراحل جن کا قرآن نے ذکر کیا کہ ان اطوار کے بعد آدم علیہ السلام کا پتلا تیار ہوا تھا۔ اور یہ ساتوں مراحل بس جمادات میں ہی پورے ہوجاتے ہیں۔ مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ پوری طرح خشک کردیا گیا۔ اب دیکھئے ان مراحل میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے کہ اس راستہ سے انسان وجود میں آیا ہے؟ ٢۔ دوسری دلیل درج ذیل آیات ہے : ﴿ھَلْ اَتٰی عَلَی الاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یِکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا﴾(۱:۷۶) ’’بلاشبہ انسان پر زمانے سے ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا‘‘ ٢۔ تخلیق انسان سے پہلے کا زمانہ قابل ذکر چیز نہیں :۔ اب دیکھئے دھر سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا آغاز زمین و آسمان کی پیدائش سے ہوا۔ اور عصر سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا آغاز تخلیق آدم سے ہوا۔ کیونکہ اللہ نے انسانی افعال و اعمال پر عصر کو بطور شہادت پیش کیا ہے۔ دہر کو نہیں کیا۔ ارشاد باری ہے کہ اس دہر میں انسان پر ایسا وقت بھی آیا ہے۔ جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ اگر وہ نباتات، حیوانات یا بندر کی اولاد ہوتا تو یہ سب چیزیں قابل ذکر ہیں اور ان مراحل میں اربوں سال بھی صرف ہوئے تو ان کا نام لینے میں کیا حرج تھا ؟ ہمارے خیال میں یہی آیت ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو کلی طور پر مردود قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ ٣۔ نظریہ ارتقاء کے ابطال پر تیسری دلیل یہ آیت ہے : ﴿ قَالَ یٰٓـاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ﴾ اللہ نے فرمایا : ’’اے ابلیس! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا ؟ ‘‘ آدم کی خصوصی تخلیق :۔ معتزلین اور پرویزی حضرات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ تسلیم کرنے کے قائل نہیں لہٰذا وہ لفظ ید کا ترجمہ قوت یا قدرت یا دست قدرت سے کرلیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہاں بیدی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی ’’اپنے دونوں ہاتھوں سے‘‘ اب اگر ید کا معنی قوت یا قدرت کیا جائے تو اس لفظ کا کیا مفہوم ہوگا کہ جسے میں نے دو قوتوں یا دو قدرتوں سے بنایا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو اپنی قدرت اور قوت ہی سے بنایا ہے پھر صرف سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے آدم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ ٤۔ نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چوتھی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے : ﴿ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾ (۵۹:۳) ”اللہ کے ہاں عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم کی سی ہے جسے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر کہا (انسان) بن جا تو وہ انسان بن گئے“ آدم کی بن باپ تخلیق :۔ ٩ ھ میں نجران کے عیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے اور ابنیت مسیح کے موضوع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کی ٹھانی۔ عیسائی بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل تھے اور مسلمان بھی۔ عیسائیوں کی دلیل یہ تھی کہ جب تم مسلمان یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو بتاؤ اگر وہ اللہ کے بیٹے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا ؟ اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا ہی اللہ کے بیٹے یا الوہیت مسیح کی دلیل بن سکتا ہے تو آدم الوہیت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی۔لیکن تم آدم کو الٰہ نہیں کہتے تو عیسیٰ علیہ السلام کیسے الٰہ ہوسکتے ہیں؟ مگر آج کے مسلمانوں میں ایک فرقہ ایسا ہے جو آدم کی بن باپ پیدائش کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں مگر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسرا مفکرین قرآن کا ہے جو نہ عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل ہیں اور نہ سیدنا آدم علیہ السلام کی بن ماں باپ پیدائش کے۔ اس آیت میں ان دونوں فرقوں کا رد موجود ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو آدم علیہ السلام کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے اور اس مثلیث کی ممکنہ صورتیں یہ ہوسکتی ہیں : ١۔ دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے۔ یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ تمام انسانوں کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی خصوصیت نہیں۔ ٢۔ دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعہ ہوئی ہو۔ یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ انسان کی پیدائش کے لیے عام دستور یہی ہے اور اس میں بھی آدم علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی خصوصیات نہیں۔ ٣۔ اب تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ دونوں کا باپ نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں کی پیدائش میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں۔ اس طرح یہ آیت بھی نظریہ ارتقاء کو مکمل طور پر مردود قرار دیتی ہے۔