سورة ابراھیم - آیت 44

وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ لوگوں (٣٢) کو اس دن سے ڈرایئے جب عذاب ان کے سامنے ہوگا، تو ظالم لوگ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہمیں کچھ دنوں کے لیے مہلت دے دے تاکہ تیری دعوت کو قبول کرلیں اور رسولوں کی پیروی کریں (تو ان سے کہا جائے گ) کیا تم لوگوں نے اس کے قبل قسم نہیں کھائی تھی کہ تم کبھی بھی ختم نہ ہو گے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٣] اس دن سے مراد یا تو ان کی موت کا دن ہے اور اس معنی کی تائید سورۃ مومنون کی آیت نمبر ١٠٠ سے ہوتی ہے اور یا آخرت کا دن ہے اور اس معنی کی تائید سورۃ السجدہ کی آیت نمبر ١٢ سے ہوتی ہے۔ نیز اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی تباہ کرنے والا عذاب مراد لیا جاسکتا ہے۔ [٤٤] قریش کا قسم کھانا کہ انھیں کبھی زوال نہیں آئے گا :۔ یعنی زبان حال سے یا قال سے گویا انھیں اس بات کا دل میں اس قدر پختہ یقین تھا جیسے کوئی قسم کھا کر وثوق سے کہتا ہے اور وہ یہ بات تھی کہ ہماری اس شان و شوکت کو کبھی زوال نہیں آسکتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ صورت حال سامنے لائیے کہ ابتدائے اسلام میں ایک طرف تو رؤسائے قریش تھے جنہیں کعبہ کی تولیت اور بعض دوسری وجوہ سے عرب بھر میں قیادت و سیادت حاصل تھی۔ سارے عرب میں انھیں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا خوشحال اور کھاتے پیتے لوگ تھے اور ان کی عزت اور ناموری کا ڈنکا بجتا تھا۔ دوسری طرف گنتی کے چند بے بس اور ناتواں مسلمان تھے جو ان کے ظلم و استبداد کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ اس صورت میں ان سرداران قریش کو کبھی یہ خیال آسکتا تھا کہ کسی وقت یہ سارا نقشہ الٹ بھی سکتا ہے۔ جب کہ ہم مجبور و محکوم ہوں گے اور یہ مسلمان ہم پر حاکم اور بالادست ہوں گے۔ اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے زبان حال سے قسمیں کھانے سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سرکش اور متکبر کافر نے فی الواقع ایسی قسم کھائی بھی ہو۔