سورة ابراھیم - آیت 24

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کلمہ طیبہ (١٩) کی کیسی مثال دی ہے وہ اس عمدہ درخت کے مانند ہے جس کی جڑ زمین میں مضبوط ہو اور جس کی شاخ آسمان میں ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٠] کلمہ طیبہ کے لغوی معنی ہے ''پاکیزہ بات'' اور اس سے مراد کلمہ توحید یعنی ﴿لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ﴾ ہے۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ جب عقیدہ و عمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو یہ جہاں تمام تر بھلائیوں کی بنیاد بن جاتا ہے وہاں ہر طرح کی برائی کی جڑ بھی کاٹ پھینکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی دعوت کا آغاز اسی کلمہ سے کیا ہے۔ [ ٣١] کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ ہے :۔ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے اور پاکیزہ درخت کی مومن سے مثال پیش کی گئی ہے جس کے دل میں کلمہ طیبہ یا کلمہ توحید رچ بس گیا ہو۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا ’’بتاؤ وہ درخت کون سا ہے جس کے پتے نہیں گرتے۔ مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے اور یہ بھی نہیں ہوتا اور یہ بھی نہیں ہوتا، یہ بھی نہیں ہوتانہ تو اس کا پھل ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا دانہ معدوم ہوتا اور نہ اس کا نفع ضائع جاتا ہے، اور ہر وقت میوہ دیتا ہے؟“ اس وقت میرے دل میں خیال آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر جب میں نے دیکھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمررضی اللہ عنہ جیسے بزرگ خاموش بیٹھے ہیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ پھر آپ نے خود ہی بتا دیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے اٹھ آئے تو میں نے اپنے والد سے کہا ”اباجان! اللہ کی قسم! میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے‘‘ انہوں نے کہا : ’’پھر تم نے کہہ کیوں نہ دیا ؟‘‘ میں نے کہا : ’’آپ سب خاموش رہے تو میں نے (آگے بڑھ کر بات کرنا) مناسب نہ سمجھا‘‘ میرے والد کہنے لگے : ’’اگر تم کہہ دیتے تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے زیادہ خوشی ہوتی‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور اللہ تعالیٰ نے شجرہ طیبہ کی چار صفات بیان فرمائیں (١) وہ طیب اور پاکیزہ ہے۔ اس کی یہ عمدگی خواہ شکل و صورت کے اعتبار سے ہو یا پھل پھول کے اعتبار سے یا پھل کے خوش ذائقہ، شیریں اور خوشبودار ہونے کے اعتبار سے ہو۔ (٢) اس کی جڑیں زمین میں خوب مستحکم اور گہرائی تک پیوست ہوچکی ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جو اپنے طویل القامت درخت کا بوجھ سہار سکتی ہیں۔ (٣) اس کی شاخیں آسمانوں میں یعنی بہت بلندی تک چلی گئی ہیں لہٰذا اس سے جو پھل حاصل ہوگا وہ ہوا کی آلودگی اور گندگی وغیرہ کے جراثیم سے پاک و صاف ہوگا۔ (٤) یہ عام درختوں کی طرح نہیں بلکہ ہر موسم میں پورا پھل دیتا ہے اور یہ باتیں کھجور کے درخت اور پھل میں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے اس درخت کو حدیث میں شجرہ طیبہ کہا گیا ہے اور ممکن ہے کہ اللہ کے علم میں کوئی ایسا درخت بھی ہوجو ہر وقت پھل دیتا ہو جیسا کہ آیت کے الفاظ سے متبادرہوتا ہے۔ نیز اللہ نے شجرہ طیبہ کو کلمہ طیبہ کے مثل قرار دیا ہے اور کلمہ طیبہ میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ سدا بہار ہے اور ہر وقت اپنے صالح برگ و بار لاتا رہتا ہے۔