وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ
اور قیامت کے دن جب تمام لوگ اللہ کے سامنے حاضر (١٦) ہوں گے تو کمزور لوگ ان لوگوں سے کہیں گے جو دنیا میں تکبر کرتے تھے کہ ہم تمہارے پیچھے چلا کرتے تھے، تو کیا آج تم اللہ کے عذاب کا کوئی حصہ ہم سے ٹال دو گے؟ تو وہ کہیں گے کہ اگر دنیا میں اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی تو ہم نے بھی تمہیں راہ راست پر لگایا ہوتا، چاہے ہم روئیں پیٹیں، چاہے صبر کریں، دونوں برابر ہے، ہمارے لیے چھٹکارے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
[٢٤] قیامت کو مطیع اور مطاع دونوں ایک جیسے بے بس ہوں گے :۔ اس آیت میں ان لوگوں کی اندھی تقلید کا ذکر ہے۔ یعنی دنیا میں جو لوگ آنکھیں بند کرکے دوسروں کے پیچھے چلنے کے عادی ہوتے ہیں یا اپنی کمزوری کو ایک معقول عذر سمجھ کر عالم لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں یا اپنے بڑے بزرگوں کو پارسا سمجھ کر ان کی اندھی تقلید کرتے چلے جاتے ہیں جب وہ اللہ کی عدالت میں حاضر ہوں گے تو وہ اپنے بڑے بزرگوں سے جن کی یہ پیروی کرتے رہے تھے، پوچھیں گے کہ دنیا میں تو ہم ساری عمر تمہیں بڑا سمجھ کر تمہاری ہی اطاعت کرتے رہے۔ بتاؤ آج کی مشکل گھڑی میں ہماری کچھ حمایت کرسکتے ہو تاکہ ہمارا عذاب کچھ ہلکا ہی ہوجائے؟ وہ کہیں گے کہ آج تو ہم اور تم دونوں ایک ہی جیسے مجبور ہیں۔ دنیا میں اگر ہم سیدھی راہ پر چلتے تو تمہیں بھی سیدھی راہ پر چلاتے مگر جب ہم خود گمراہ تھے تو تمہیں کیا ہدایت دیتے؟ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اس عذاب سے نجات کی راہ سکھا دیتا تو ہم تمہیں بھی بتا دیتے مگر آج تو ہم دونوں یکساں مجرم ہیں اور ایک ہی جیسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نہ خاموش رہنے اور صبر کرنے میں کچھ فائدہ نظر آتا ہے اور نہ گھبرانے اور چیخنے چلانے میں۔