أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ
کیا آپ (١٥) دیکھ نہیں رہے ہیں کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بامقصد پیدا کیا ہے، اگر وہ چاہے گا تو تمہیں ختم کردے گا اور ایک نئی مخلوق لے آئے گا۔
[٢٢] یعنی زمین و آسمان اور اس کائنات کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کی بنیاد ٹھوس حقائق پر ہے۔ اسی طرح اگر اعمال صالحہ کی بنیاد کسی ٹھوس حقیقت پر ہو تو اس کا ثمرہ دائمی اور پائیدار ہوگا اور وہ آخرت میں بھی اپنا ثمرہ دے گا۔ مگر جس تعمیر کی بنیاد کسی ٹھوس جگہ کی بجائے ریت یا راکھ پر رکھ دی جائے تو تیز آندھی اسے گرا کر زمین بوس کردے گی۔ اس کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے کہ کوئی تیز آندھی کا جھکڑ آجائے یا نیچے سے پانی بہہ جائے اور یہ جھکڑ یا حادثہ کافر کی موت ہے اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے نیک اعمال بھی برباد ہوجاتے ہیں۔ [ ٢٣] ان آیات میں مسلسل کافروں سے ہی خطاب چل رہا ہے جو محض حق کا انکار ہی نہیں کرتے بلکہ حق کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کی مخالفت اور مومنوں کی ایذا رسانی میں ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ درمیان میں ان کے نیک اعمال کا بھی ذکر آگیا جیسے مشرکین مکہ حاجیوں کی خدمت کیا کرتے تھے، انھیں پانی پلانے کا بندوبست کرتے تھے، کمزور لوگوں کی امداد کے لیے فنڈ اکٹھا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں بھی انھیں ان کی بداعمالیوں پر انتباہ کیا گیا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اگر تم یہی کچھ کرتے رہے تو اللہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو یہاں لانے اور انھیں اقتدار بخشنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ چنانچہ چند ہی سالوں کے بعد کفار مکہ کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔