سورة ابراھیم - آیت 9

أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا تمہیں ان قوموں کی خبریں (٩) نہیں پہنچیں ہیں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، یعنی قوم نوح اور عاد اور ثمود کی خبریں، اور ان لوگوں کی خبریں جو ان کے بعد دنیا میں پائے گئے، انہیں صرف اللہ جانتا ہے، ان کے انبیاء ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے، تو انہوں نے بات کرنے سے انہیں روک دیا اور کہا کہ تم جو (دین) دے کر بھیجے گئے ہو اس کا ہم انکار کرتے ہیں، اور جو دعوت تم ہمارے سامنے پیش کر رہے ہو اس کی صداقت کے بارے میں ہمارے دلوں میں گہرا شک و شبہ ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١] پچھلی آیت پر موسیٰ علیہ السلام کا خطاب ختم ہوا اور اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مشرکین مکہ کو خطاب شروع ہوتا ہے۔ سابقہ مقامات پر اقوام اور انبیاء کا الگ الگ ذکر ہوتا رہا۔ یہاں بحیثیت مجموعی ذکر ہو رہا ہے اور قریش مکہ سے صرف ان اقوام کا ذکر کیا گیا ہے جو ان کے آس پاس تھیں یاجن کے حالات کسی نہ کسی ذریعہ سے ان تک پہنچ سکتے تھے۔ مثلاً قوم نوح، عاد، ثمود، قوم فرعون، اصحاب مدین وغیرہ وغیرہ لیکن بہت سی ایسی اقوام بھی تھیں جن کے حالات کا علم ان کی دسترس سے باہر تھا اور ان سے کہیں دور کے علاقوں میں آباد تھیں اور ان پر بھی انکار حق کی بنا پر عذاب آیا تھا۔ لہٰذا قرآن نے ان کا تفصیل سے ذکر نہیں کیا محض اشارہ کردیا ہے۔ [ ١٢] یہ محاورہ ہے۔ اور اس سے مراد ایسا انکار ہوتا ہے جس میں تعجب بھی شامل ہو جیسے ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ اس نے اپنی انگلی منہ میں دبا لی یا اپنا ہاتھ کانوں پر رکھ لیا اور مجاہد کہتے ہیں کہ ’’یہ محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا، اس سے وہ باز رہ‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ ابراہیم) [ ١٣] انبیاء کی دعوت سے مشرکوں کی بے چینی :۔ تمام انبیاء کے مخالفین کا یہی حال رہا ہے اگرچہ وہ بظاہر حق کی مخالفت کرتے اور اس مخالفت میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں مگر حق کے دلائل کے سامنے وہ بے بس ہوجاتے ہیں۔ نیز جوں جوں حق کو غلبہ نصیب ہوتا ہے ان کا قلبی سکون رخصت ہوتا جاتا ہے اور شک، اضطراب اور بے چینی بڑھتی جاتی ہے۔ اس طرح داعیان حق کو بے چین کرنے والے خود بھی چین سے محروم ہوجاتے ہیں اور اگر اس کے لفظی معنی کا اعتبار کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ رسولوں کو بات بھی نہیں کرنے دیتے تھے اور بات کرتے وقت ان کے منہ کے آگے اپنے ہاتھ رکھ دیتے تھے اور کہتے کہ ہم تمہیں رسول ہی نہیں سمجھتے تو بات کرنے اور سننے کا فائدہ کیا ہے؟