الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
الر (١) یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں، انہیں اس اللہ کی راہ پر ڈال دیں جو بڑا زبردست بڑی تعریفوں والا ہے۔
[١] ہدایت اور اللہ کا اذن؟ روشنی یا نور کے مقابلہ میں تاریکی نہیں بلکہ تاریکیاں فرمایا اس لیے صراط مستقیم صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور اسی صراط مستقیم کو روشنی سے تعبیر فرمایا جبکہ ٹیڑھی یا باطل کی راہیں لاتعداد ہوسکتی ہیں اور یہ سب گمراہی کے راستے ہیں اس لیے ان سب راستوں کو تاریکیوں سے تعبیر کیا۔ گویا اس کتاب قرآن کریم کو اتارنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو باطل کی تمام راہوں سے ہٹا کر صراط مستقیم پر لائیں۔ اور یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب لوگوں کے پروردگار کو بھی انھیں راہ راست پر لانا منظور ہو۔ اور اس منظوری کا قانون یہ ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے اللہ یقیناً ہدایت کی توفیق دیتا ہے اور یہی اس کی منظوری یا اذن ہوتا ہے لیکن جو لوگ ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کریں انھیں اللہ ہدایت کی توفیق نہیں بخشتا۔