وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
اور اگر کسی قرآن (٢٧) کے ذریعہ پہاڑوں کو چلا دیا جاتا، یا زمین کے ٹکڑے کردیئے جاتے یا مردوں کو گویائی دے دی جاتی (تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے) بلکہ تمام فیصلے (٢٨) صرف اللہ کے اختیار میں ہیں، کیا اہل ایمان یہ بات نہیں سمجھتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دیتا، وار اہل کفر (٢٩) پر ان کے کیے کی بدولت کوئی نہ کوئی مصیبت آتی رہے گی، یا ان کے گھروں کے قریب رہنے والوں پر کوئی آفت آتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آجائے گا، بیشک اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ہے۔
[٤١] حسی معجرات دکھلانے بے سود ہیں :۔ لفظ قُطّعت آیا ہے اور قطع ارض کے معنی فاصلہ طے کرنا اور قَطّع بمعنی ٹکڑے ٹکڑے کردینا اور بمعنی پھاڑ دینا یا شق کردینا ہے اور یہ سب معنی یہاں مراد لیے جاسکتے ہیں۔ یعنی فاصلے فوراً طے کرا دیئے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی یا شق ہوجاتی اور اس آیت میں قریش کے ان حسی معجزات کے مطالبوں کا ذکر ہے جو وہ گاہے گاہے کرتے رہتے تھے مثلاً ایک یہ کہ یہ جو مکہ کے ارد گرد پہاڑ ہیں۔ یہ یہاں سے ہٹا دیئے جائیں تاکہ ہمارے لیے زمین کشادہ ہوجائے، دوسرا یہ کہ یہ زمین پھٹ جائے اور اس سے چشمے جاری ہوں تاکہ ہمارے لئے پانی کی قلت دور ہوجائے۔ تیسرے یہ کہ ہمارے مرے ہوئے آباؤ و اجداد میں سے کوئی شخص زندہ ہو کر ہمارے سامنے آئے اور اس بات کی تصدیق کرے جو تم ہمیں دوبارہ جی اٹھنے کے متعلق بتاتے رہتے ہو تو تب ہم تمہاری تصدیق کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس پر عمل پیرا ہونے سے ایسے واقعات وقوع پذیر ہوجاتے تو یہی قرآن ہوسکتا تھا۔ مگر تم لوگ پھر بھی ایمان نہ لاتے اور اگر ہم تمہیں ان میں سے کوئی معجزہ دکھا بھی دیں تو تم پھر بھی اسے جادو کا کرشمہ ہی کہہ دو گے۔ ایمان پھر نہیں لاؤ گے۔ [٤٢] کفار کے بار بار کسی ایسے حسی معجزہ کے مطالبہ پر بعض مسلمانوں کے دلوں میں بھی بعض دفعہ یہ خیال آنے لگتا کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھا دے تو بہتر ہوگا۔ یہ کافر لوگ ایمان لے آئیں تو ہماری مشکلات میں بھی کمی واقع ہوجائے گی۔ اس بات کا اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ فی الواقع ایسا معجزہ دکھانا، اللہ ہی کا کام ہے کیونکہ ہر طرح کے امور پر صرف اسی کا اختیار و تصرف ہے۔ مگر مومنوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ ایسا معجزہ دکھانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ پہلے یہ بتلائی گئی کہ یہ کافر ایسا معجزہ دیکھ بھی لیں تو ایمان نہیں لائیں گے بلکہ ان کی ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوگا اور یہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگر مطلوب یہی ہوتا کہ کافر ایسا معجزہ دیکھ کر ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں تو اللہ انھیں ایسا معجزہ دکھائے بغیر بھی یہ قدرت رکھتا ہے کہ انھیں ایمان لانے پر مجبور کردے مگر ایسے ایمان کی کچھ قدر و قیمت نہیں۔ قدر و قیمت تو اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار کی آزادی سے اور سوچ سمجھ کر ایمان لائے۔ [٤٣] لفظ تَحُلُ کو اگر واحد مونث غائب کا صیغہ سمجھا جائے تو اس کا معنی وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے اور اگر اسے واحد مذکر حاضر کا صیغہ سمجھا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا۔ ’یا آپ ان کافروں کے گھروں کے پاس اتریں گے‘اور اس سے مراد مکہ کی فتح ہوگا جیسا کہ ﴿ وَاَنْتَ حِـۢلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ ﴾ میں بھی مذکور ہے۔ اس آیت میں خطاب صرف مکہ کے کافروں سے نہیں بلکہ تمام کافروں سے ہے۔ اور پہلے معنی کے لحاظ سے ان مصائب سے مراد قحط، غزوہ بدر میں کافروں کی شکست فاش اور دوسرے مصائب ہیں اور اللہ کے وعدہ سے مراد فتح مکہ ہے جس کے نتیجہ میں کفر کی کمر ٹوٹ گئی اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو ان کے گھروں کے قریب پڑنے والی مصیبت سے مراد صلح حدیبیہ جو انجام کے لحاظ سے کافروں کے حق میں بہت بری ثابت ہوئی اور اللہ کے وعدہ سے مراد بہرحال مکہ کی فتح ہے۔