اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ
اللہ جس کے لیے چاہتا ہے روزی میں وسعت (٢٢) دیتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، اور وہ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں ایک عارضی فائدہ ہے۔
[٣٥] مال ودولت کی فراوانی اللہ کی نظر رحمت کی دلیل نہیں :۔ دنیا دار لوگوں کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ وہ کسی شخص کی قدر و قیمت کو مال و دولت اور دنیوی جاہ و حشم کے پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جو شخص جس قدر خوشحالی سے زندگی بسر کر رہا ہے اتنا ہی اس کا پروردگار اس پر مہربان ہے اور کسی کی معیشت کا تنگ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس سے ناراض ہے۔ اس آیت میں اسی نظریہ کی تردید کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ رزق کی کمی بیشی کے لیے ایک دوسرا ہی قانون ہے جس میں دوسری قسم کی مصلحتیں ہیں دنیا میں رزق کی کمی بیشی کا انسان کی ہدایت اور فلاح و نجات سے کچھ تعلق نہیں بلکہ رزق کی زیادتی اکثر انسانوں کے لیے گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ لہٰذا دنیوی مال و متاع پر ریجھ نہ جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ سب چیزیں فانی ہیں اور ان دائمی اور پائیدار نعمتوں کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں جو اللہ کے فرمانبردار لوگوں کو اخروی زندگی میں عطا کی جائیں گی۔