وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ
اور اہل کفر آپ سے اچھائی سے پہلے برائی کا مطالبہ (٦) کرتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے (عبرتناک) مثالیں گزر چکی ہیں اور بیشک آپ کا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود ان کی بڑی مغفرت (٧) کرنے والا ہے، اور بیشک آپ کا رب بہت سخت سزا دینے والا بھی ہے۔
[١١] عذاب میں تا خیر کے اسباب۔ منکرین حق کا یہ مطالبہ سنجیدگی پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ ایسے مذاق اور طنز پر مبنی ہوتا ہے، جس میں ان کا انکار پوشیدہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر تم سچے ہو تو جیسا کہتے ہو وہ عذاب ہم پر کیوں نہیں لے آتے؟ یا وہ عذاب ہم پر اب تک آیا کیوں نہیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ان سے پہلے کئی بار ایسا ہوچکا ہے کہ لوگوں نے عذاب طلب کیا اور جیسا عذاب طلب کیا ان پر ویسا عذاب آگیا اور اب جو ان کے مطالبے پر ابھی تک عذاب نہیں آیا اور تو اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اللہ ان لوگوں کے ایسے مطالبات فوراً پورے کرنا شروع کردیتا تو یہ دنیا کب کی تباہ ہوچکی ہوتی۔ لہٰذا یہ اللہ کی رحمت ہے کہ ایسے مطالبے فوراً پورے نہیں کردیتا۔ دوسرے یہ کہ عذاب کا بھی ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے مہلت کا وقت ہوتا ہے۔ اس مدت میں اگر قوم اپنی حالت بہتر بنا لے تو اللہ عذاب نازل ہی نہیں کرتا اور یہ بھی اللہ کی بندوں پر رحمت ہے۔ پھر بھی اگر قوم نہ سنبھلے تو آخری چارہ کار یہ ہوتا ہے کہ ان کو سزا دے اور عذاب نازل کرے۔ پھر جب عذاب نازل کرتا ہے تو اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔