وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور اگر آپ تعجب (٥) کرنا چاہیں تو ان کا یہ قول لائق تعجب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں پھر نئی زندگی دی جائے گی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کا انکار کردیا ہے، اور انہی کی گردن میں بیڑیاں ڈالی جائیں گی، اور یہی لوگ جہنمی ہوں گے، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
[٩] نبا تات میں معرفت الہٰی پر دلائل۔ یعنی اگر آپ کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی ایسی ایسی نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور ہمیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ایسی حیران کن نشانیاں دیکھتے بھی ہیں اور پھر یہ پوچھتے ہیں کہ جب ہم مر کر زمین میں مل جائیں گے تو کیا پھر دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایک بیج زمین میں مل کر مٹی بن جاتا ہے۔ مگر جب موسم آتا ہے تو وہی بیج اگ کر ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ پھر آخر تم کیوں دوبارہ پیدا نہیں کئے جاسکتے؟ [١٠] اللہ کی قدرتوں سے انکار اللہ ہی کا انکار ہوتا ہے۔ گویا دوبارہ پیدا ہونے سے انکار حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے جسے اللہ ہی کے انکار کے مترادف بتلایا گیا ہے۔ ایک تو اس وجہ سے وہ دوزخ کے مستحق ہوئے دوسرے اللہ کے حضور جواب دہی کے۔ منکرین کی زندگی عموماً بے لگام اور شتر بے مہار کی طرح گزرتی ہے۔ ایسے لوگ دراصل محض اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر انھیں اتنا ہی جکڑ کر بند کردیا جائے گا جتنا کہ وہ دنیا میں بے لگام تھے۔