ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
یہ غیب کی خبریں (٨٨) ہیں، جنہیں ہم آپ کو بذریعہ وحی بتا رہے ہیں، اور جب وہ بطور سازش اپنے ارادے پر متفق ہورہے تھے تو آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے۔
[٩٧] کفار مکہ کے سوال کا جواب دینا آپ کی نبوت کی دلیل ہے :۔ اگرچہ تورات اور دوسری اسرائیلی روایات میں کئی جگہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن میں انبیاء کو ایک پاکیزہ صورت انسان کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی روایات انھیں کئی مقامات پر مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ دوسرے قرآن میں قصہ کے بیان سے زیادہ مواعظ حسنہ اور تذکیربآیات اللہ پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی روایات اس سے خالی ہیں۔ تاہم قصہ کی اصولی باتیں بہت حد تک ملتی جلتی ہیں اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود نہیں تھے اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اسرائیلیات کو پڑھا ہے اور نہ علمائے یہود سے استفادہ کیا ہے۔ پھر آپ کا اس طرح یہ واقعہ بیان کردینا بجز وحی الٰہی کے ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ آپ کی نبوت پر واضح دلیل ہے۔