وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
اور اپنے والدین کو شاہی تخت پر جگہ (٨٦) دی اور سبھوں نے ان کو سجدہ کیا، یوسف نے کہا، اے ابا ! میرے گزشتہ خواب کی یہی تعبیر ہے، اللہ نے اسے سچ کر دکھایا ہے، اور مجھ پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ مجھے جیل سے نکالا، اور آپ سب کو بادیہ سے یہاں پہنچایا، اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا کردیا تھا، بیشک میرا رب جو چاہتا ہے اس کی نہایت اچھی تدبیر کرتا ہے، بیشک وہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے۔
[٩٤] سیدنا یوسف علیہ السلام کے خواب کے واقع ہونے کا وقت :۔ دوسرے دن جب سیدنا یوسف علیہ السلام شاہی دربار میں پہنچے تو آپ علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت شاہی پر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور یہ والدہ سیدنا یوسف علیہ السلام کی کوئی سوتیلی والدہ ہی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں چھوٹے بھائیوں کی حقیقی والدہ راحیل، بن یمین کی پیدائش کے وقت ہی فوت ہوگئی تھی۔ جب والدین اور برادران یوسف نے سیدنا یوسف کی یہ شان و شوکت دیکھی تو والدین نیچے اترے اور وہ دونوں اور گیارہ بھائی سب کے سب سیدنا یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ اس سجدہ کے تعظیمی سجدہ ہونے میں تو کسی کو اختلاف نہیں، اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس سجدہ کی صورت وہی تھی جس پر شرعاً لفظ سجدہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ جیسے ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں یا سجدہ کے معنی صرف جھک جانا ہے۔ جیسے دوسرے کو سلام کرتے وقت بھی بعض دفعہ انسان جھک جاتا ہے۔ کیونکہ لغوی لحاظ سے لفظ سجد میں اس معنی کی بھی گنجائش ہے۔ اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو پھر تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ محض تھوڑا سا جھک جانے پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے البتہ جن مفسرین نے پہلے معنی مراد لئے ہیں وہ صراحت کردیتے ہیں کہ سجدہ تعظیمی ہماری شریعت میں فی الواقع حرام ہے۔ لیکن پہلی شریعتوں میں اس کی اجازت تھی۔ سجدا سے پہلے خروا کا لفظ ہمارے خیال میں دوسرے معنی کی ہی تائید کرتا ہے۔ [٩٥] سیدنا یوسف علیہ السلام کا اللہ کے احسانات کا شکر ادا کرنا :۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا یوسف علیہ السلام کو اپنے پر اللہ کے احسانات یاد آنا شروع ہوگئے۔ اور اپنے والد محترم سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ جو خواب میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ یہ اس کی حقیقی تعبیر سب کے سامنے آگئی ہے۔ (اس خواب اور اس کی حقیقت کا برادران یوسف کو اسی مجلس میں علم ہوا۔ اس سے پہلے یہ خواب نہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کسی کو بتایا تھا اور نہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے) یہ بھی اللہ کا مجھ پر بڑا فضل و احسان ہے اور اس وقت بھی اللہ نے بڑا احسان کیا تھا۔ جب مجھے قید سے نکالا تھا اور مجھے باعزت طور پر عورتوں کے مکر و فریب سے بری کیا تھا۔ پھر اب یہ احسان کیا ہے کہ آپ سب لوگوں کو دیہات سے نکال کر یہاں میرے پاس لے آیا ہے۔ یہاں ہر طرح کی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے بافراغت میسر کی ہیں اور ہم سب کو یہاں اکٹھا کردیا ہے کہ پیارو محبت سے گزر بسر کریں۔ ورنہ شیطان نے تو ہم بھائیوں کے درمیان فتنہ کھڑا کر ہی دیا تھا۔ (اس وقت بھی سیدنا یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے نہ کوئی شکایت کی اور نہ ان پر کوئی الزام رکھا تاکہ وہ مزید شرمسار نہ ہوں) پھر اسی فتنہ سے بمصداق : عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد۔ اللہ تعالیٰ نے غیر محسوس انداز میں میرے لئے ہر طرح کی بھلائی کی راہیں پیدا کردیں۔ کسی کو کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ مجھے کنویں میں ڈالنے پھر قید خانہ میں ڈالنے میں اللہ کی کیا کیا حکمتیں پنہاں تھیں؟